کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 110
ثابت ہے کہ اگر کوئی شخص فجر کی دو سنتیں فرض سے پہے ادا نہ کر سکے تو وہ جماعت کے ساتھ فرض پڑھنے کے بعد دو رکعت سنتیں پڑھ لے، سورج کے طلوع ہونے تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی جب کہ پہلے انہوں نے سنتیں ادا نہیں کی تھیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو انہوں نے اٹھ کر دو سنتیں پڑھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھتے رہے لیکن آپ نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں : جب فرض نماز کے بعد انہوں نے اٹھ کر دو رکعتیں پڑھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے یہ دو رکعتیں کون سی پڑھی ہیں ؟ حضرت قیس نے کہا: یہ فجر کی دو سنتیں پڑھی ہیں جو میں پہلے نہیں پڑھ سکا تھا، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ فَسَکَتَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ۔[1] صحیح مسلم کی ایک روایت سے بھی اس مسئلے کی تائید ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک شخص مسجد میں آیا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھا رہے تھے، اس نے مسجد کے ایک کونے میں پہلے دو رکعتیں (فجر کی سنتیں ) پڑھیں ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہوگیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، تو اس شخص سے پوچھا: تونے (فرض) نماز کس کو شمار کیا؟ وہ جس کو تونے اکیلے پڑھا یا اس کو جو تونے ہمارے ساتھ پڑھی؟[2] اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں مروجہ طریقے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا اور نہایت خوبصورت انداز سے اس کی نفی فرما دی۔ ایک سوال بالعموم یہ پوچھا جاتا ہے کہ بعد میں جماعت کے ساتھ ملنے والے شخص کی پہلی رکعت کون سی ہوگی، امام کے ساتھ ملنے والی یا بعد میں پوری کرنے والی؟ ایسے شخص کی پہلی رکعت وہ ہوگی جو اسے امام کے ساتھ ملی ہے، چاہے وہ امام کی دوسری، تیسری یا چوتھی رکعت
[1] صحیح ابن خزیمہ، حدیث: 1116، موارد الظمآن، النوافل، حدیث: 624۔ [2] صحیح مسلم، حدیث: 712۔