کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 105
کے اعتبار سے سمجھ دار ہو سکتے ہیں ، بنا بریں محض چھوٹا سمجھ کر ان کو پیچھے دھکیل دینا، نہ عقل و شعور کا کوئی صحیح استعمال ہے اور نہ حدیثِ رسول ہی کا صحیح فہم۔ ٭ مستقل امام ایسے شخص کو مقرر کرنا چاہیے جو زہد و تقویٰ میں ممتاز ہو۔ کبھی فاسق و فاجر شخص کے پیچھے بھی (اگر نماز پڑھنی پڑ جائے تو) جائز ہے۔تاہم فاسد العقیدہ شخص کا معاملہ کچھ اور ہے، اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ ٭ اسی طرح جو شخص قرآن زیادہ اچھا پڑھنے والا ہو، وہ دوسروں کی بہ نسبت امامت کا زیادہ مستحق ہے چاہے وہ بچہ ہی ہو۔ ٭ امام کو مقتدیوں کا خیال رکھتے ہوئے مختصر نماز پڑھانی چاہیے لیکن اِختصار کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ نماز میں ارکان کی تعدیل اور اطمینان کو نظر انداز کر دیا جائے، جیسا کہ آج کل اکثر ائمہ حضرات کا طریقہ ہے۔ تعدیلِ ارکان نہایت ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ۔ تعدیل کے ساتھ اختصار پیش نظر رہے۔ (اس کی تفصیل ابتدا میں ، یعنی بابِ دوم میں گزرچکی ہے) ٭ مقتدیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ امام کی اقتدا (متعابعت) کریں ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ امام سے سبقت نہ کریں ، یعنی کوئی کام بھی، رکوع ہو یا سجدہ، امام سے پہلے نہ کریں بلکہ ہر کام امام کے بعد کریں ۔ تاہم بلا تاخیر کریں ، اس کو متابعت کہتے ہیں ، حتی کہ مقتدی اگر رکوع یا سجدے میں 3 مرتبہ تسبیح نہیں بڑھ سکا، تب بھی اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ امام کے فوراً بعد رکوع اور سجدے سے اٹھ جائے۔ اس میں بھی لوگ بڑی بے احتیاطی کرتے ہیں اور امام سے پہلے ہی رکوع اور سجدے میں چلے جاتے ہیں ۔ (جس کو مسابقت کہا جاتا ہے جو ممنوع ہے) ایسے لوگوں کے لیے حدیث میں نہایت سخت وعید آئی ہے کہ کہیں اللہ ان کے سر کو گدھے کا سر نہ بنا دے۔،علاوہ ازیں عملاً ایسا کر نے والے کی نماز بھی باطل ہے۔ تاہم سہو ونسیان یا جہالت کی وجہ سے کرنے والے کی نماز تو باطل نہیں ہوگیا تاہم گناہ گار ہوگا۔[1]
[1] فتاویٰ ابن تیمیہ: 337/23۔