کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 100
علمائے کرام نے اس کی بعض اور صورتیں بھی بیان فرمائی ہیں لیکن یہ ان میں آسان ترین صورت ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’احکام و مسائل‘‘ مجموعۂ فتاوی حافظ عبد المنان صاحب نور پوری حفظہ اللہ ج، 1، ص: 100,109)
البتہ اس طرح ترتیب قائم نہیں رہتی لیکن چونکہ اس کی ایک معقول وجہ ہے اور وہ ہے جماعت کا ہونا، اس لیے یہاں جماعت کو ترتیب کے مقابلے میں ترجیح ہوگی۔ اگرچہ امام اور مقتدی کی نمازوں میں نیتوں کا فرق ہے، ایسے موقعے پر یہ فرق بھی اہمیت نہیں رکھتا۔
ہاں ، جماعت کا مسئلہ نہ ہو، انفرادی طور پر دو یا تین نمازیں اکٹھی پڑھنی ہوں یا قافلے کی صورت ہو جیسے سفر میں ہوتا ہے اور پورے قافلے نے نمازیں ملاکر پڑھنی ہوں تو ان دونوں صورتوں میں ترتیب ضروری ہوگی۔
انفرادی صورت میں ترتیب وار یکے بعد دیگرے نمازیں ادا کی جائیں ، البتہ قافلے کی صورت میں باجماعت قضا کی ادائیگی ہوگی تو بالترتیب ہر نماز نئی تکبیر کے ساتھ ادا کی جائے گی۔ جیسے جنگِ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار نمازیں رہ گئی تھیں ، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء۔ آپ نے چاروں نمازیں عشاء کے بعد بالترتیب باجماعت ادا فرمائیں ۔ ایک مرتبہ اذان دی گئی، پھر اقامت کہہ کر ظہر، پھر اقامت کہہ کر عصر، پھر اقامت کہہ کر مغرب اور پھر اقامت کہہ کر عشاء کی نماز ادا کی گئی۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ اس موقع پر دو نمازیں (عصر اور مغرب) رہ گئی تھیں جنھیں مغرب کے بعد ترتیب وار ادا کیا گیا۔[1]
ملحوظہ: ایک قضا کی صورت اور ہے اور وہ یہ کہ ایک شخص سالہا سال تک نماز نہیں پڑھتا پھر
[1] جامع الترمذي، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی الرجل تفوتہ الصلوات بایتہن یبدأ، حدیث: 180,179۔