کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 88
وہ منہ پھیرنے والے ہیں۔‘‘ حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس میں ان کے جہل کا سبب بیان فرمایا کہ وہ حق معلوم کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور نہ کسی دلیل پر غور کرتے ہیں، جیسے فرمایا: (وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ) (یوسف: 105) ’’اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے گزرتے ہیں اور وہ ان سے بے دھیان ہوتے ہیں۔‘‘[1] 6 فساد پھیلانا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ )(آل عمران: 112) ’’ان پر ذلت مسلط کر دی گئی جہاں کہیں وہ پائے جائیں مگر اللہ کی پناہ اور لوگوں کی پناہ کے ساتھ اور وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے اور ان پر محتاجی مسلط کر دی گئی، یہ اس لیے کہ بے شک وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور نبیوں کو کسی حق کے بغیر قتل کرتے تھے، یہ اس لیے کہ انھوں نے نا فرمانی کی اور وہ حد سے گزرتے تھے۔ ‘‘ {لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآئُ سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَہُمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِo} (آل عمران: 181) ’’بلاشبہ یقینا اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنھوں نے کہا بے شک اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں، ہم ضرور لکھیں گے جو انھوں نے کہا اور ان کا نبیوں کو کسی حق کے بغیر قتل کرنا بھی اور ہم کہیں گے جلنے کا عذاب چکھو۔‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا وَ
[1] ) تفسیر القرآن الکریم: 2/717۔