کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 87
(اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ (1) مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ (2) لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ)(الانبیائ: 1-3) ’’لوگوں کے لیے ان کا حساب بہت قریب آگیا اور وہ بڑی غفلت میں منہ موڑنے والے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی جو نئی ہو مگر وہ اسے مشکل سے سنتے ہیں اور وہ کھیل رہے ہوتے ہیں۔ اس حال میں کہ ان کے دل غافل ہوتے ہیں۔ اور ان لوگوں نے خفیہ سرگوشی کی جنھوں نے ظلم کیا تھا، یہ تم جیسے ایک بشر کے سوا ہے کیا؟ تو کیا تم جادو کے پاس آتے ہو، حالانکہ تم دیکھ رہے ہو؟‘‘ حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یعنی لوگوں کا حال یہ ہے کہ اپنا حساب نہایت قریب آنے کے باوجود ایسی بھاری غفلت میں پڑے ہیں کہ ہر نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ’’اَلنَّاسُ‘‘ کے لفظ سے تمام لوگوں کو حساب کے بہت قریب آنے سے ڈرایا مگر آئندہ آیات میں کفار و مشرکین کی غفلت اور اعراض کو زیادہ اجاگر فرمایا ہے۔ اس آدمی کی غفلت و اعراض میں کیا شک ہے جو یہ جانتے ہوئے بھی خبردار نہیں ہوتا کہ مجھے یقینا مرنا ہے، صرف اس لیے کہ موت یا قیامت کا دن اسے متعین کر کے نہیں بتایا گیا۔ اس کی مثال اس نکمّے طالب علم کی سی ہے جسے معلوم ہے کہ امتحان یقینا ہونا ہے مگر وہ اس لیے بے پروا ہے کہ ابھی امتحان کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔ ابن کثیر نے یہاں ابو العتاہیہ کا ایک شعر نقل فرمایا ہے: اَلنَّاسُ فِيْ غَفَلَاتِہِمْ وَ رَحَی الْمَنِیَّۃُ تَطْحَنُ ’’لوگ اپنی غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں، جب کہ موت کی چکی پیستی چلی جا رہی ہے۔‘‘[1] (أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ هَذَا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُمْ مُعْرِضُونَ ) (الانبیائ: 24) ’’یا انھوں نے اس کے سوا کوئی معبود بنا لیے ہیں؟ کہہ دے لائو اپنی دلیل۔ یہی ان کی نصیحت ہے جو میرے ساتھ ہیں اور ان کی بھی جو مجھ سے پہلے تھے، بلکہ ان کے اکثر حق کو نہیں جانتے، سو
[1] ) تفسیر القرآن الکریم: 2/704۔