کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 84
(وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ) (الاعراف: 176) ’’اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان کے ذریعے بلند کر دیتے، مگر وہ زمین کی طرف چمٹ گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا، تو اس کی مثال کتے کی مثال کی طرح ہے کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تو زبان نکالے ہانپتا ہے، یا اسے چھوڑ دے تو بھی زبان نکالے ہانپتا ہے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا۔ سو تو یہ بیان سنا دے، تاکہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘ حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیات پر عمل کی توفیق دے کر صالحین و ابرار کے آسمان پر بلند کر دیتے، مگر وہ زمین اور پستی (دنیا کے حقیر ساز و سامان) کی طرف چمٹ ہی گیا اور اپنی خواہش نفس کے پیچھے لگ کر ہر وقت دنیا کی طلب میں لگ گیا، تو اس کی مثال ہر وقت زبان نکال کر ہانپتے ہوئے کتے کے ساتھ دی گئی۔‘‘[1] (أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًاِ) (الفرقان: 43) ’’کیا تو نے وہ شخص دیکھا جس نے اپنا معبود اپنی خواہش کو بنا لیا، تو کیا تو اس کا ذمہ دار ہو گا۔‘‘ پھر امام زمخشری کی الکشاف سے نقل کرتے ہیں: ’’جو شخص اپنے دین میں خواہش ہی کا حکم مانے، کوئی بھی کام کرنے یا نہ کرنے میں اسی کے پیچھے چلے تو یہ شخص اپنی خواہش کی عبادت کرنے والا اور اسے اپنا معبود بنانے والا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ شخص جو اپنی خواہش کے سوا کسی اور کو اپنا معبود ہی نہیں سمجھتا آپ اسے ہدایت کی طرف کیسے لا سکتے ہیں؟ کیا آپ اس کے ذمہ دار ہیں، یا اسے اسلام لانے پر مجبور کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ تمہیں ہر حال میں اسلام قبول کرنا ہو گا، چاہو یا نہ چاہو، جب کہ دین میں (قبول اسلام کے معاملہ میں) زبردستی ہے ہی نہیں، فرمایا: (لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ) (البقرۃ: 256) ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘ اور فرمایا: (وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ) (قٓ: 45) ’’اور تو ان پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں۔‘‘ اور فرمایا:( لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِر) (الغاشیۃ: 22) ’’تو ہرگز ان پر کو مسلط کیا ہوا نہیں ہے۔‘‘[2]
[1] ) تفسیر القرآن الکریم:1/703۔ [2] ) تفسیر القرآن الکریم: 3/189۔