کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 73
(مَثَلُ مَا يُنْفِقُونَ فِي هَذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَكِنْ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ )(آل عمران: 117) ’’اس کی مثال جو وہ اس دنیا کی زندگی میں خرچ کرتے ہیں، اس ہوا کی مثال جیسی ہے جس میں سخت سردی ہے، جو ایسے لوگوں کی کھیتی کو آپہنچی جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، تو اس نے اسے برباد کر دیا اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا اور لیکن وہ (خود) اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہیں۔‘‘ اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’عام طور پر مصیبت کے وقت اولاد انسان کے کام آتی ہے، مگر اس وقت کفار کی اولاد ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔ اوپر کی آیات میں مومن اور متقی کے نیک اعمال کا انجام ذکر فرمایا کہ ان کی ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی بھی ضائع نہیں ہو گی، بلکہ اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا، اب اس آیت میں کافر کے صدقہ و خیرات کا رفاہی کاموں کو آخرت میں بے فائدہ اور ضائع ہونے کے اعتبار سے ان لوگوں کی کھیتی سے تشبیہ دی ہے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، جو کھیتی دیکھنے میں سرسبز و شاداب نظر آئے لیکن یکایک سخت سرد ہوا چلے اور اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دے۔ یہی حال کفار کے صدقہ خیرات کا ہے، وہ چونکہ ایمان و اخلاص کی دولت سے محروم ہیں، اس لیے آخرت میں ان کے اعمال تباہ و برباد ہو جائیں گے اور انہیں ان اعمال کا کچھ بھی اجر نہیں ملے گا۔‘‘[1] ایک اور مقام پر فرمایا: (إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَسَيُنْفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ )(الانفال: 36) ’’بے شک جن لوگوں نے کفر کیا وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں، تاکہ اللہ کے راستے سے روکیں۔ پس عنقریب وہ انھیں خرچ کریں گے، پھر وہ ان پر افسوس کا باعث ہوں گے، پھر وہ مغلوب ہوں گے اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔‘‘ حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اہل مکہ کہ جن کا یہاں ذکر ہو رہا ہے وہ اپنے اموال لوگوں کو اسلام سے روکنے کے لیے ہر طرح
[1] ) تفسیر القرآن الکریم: 1/291-292۔