کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 69
’’و کذلک الفسق فسقان فسق ینقل عن الملۃ و فسق لا ینقل عن الملۃ فیسمی الکافر فاسقا و الفاسق من المسلمین فاسقا ذکر اللّٰہ ابلیس فقال:  و کان ذلک الفسق منہ کفرا۔‘‘[1] ’’اور اسی طرح فسق بھی دو قسموں پر مشتمل ہے ایک ایسا فسق ہے جو ملت سے خارج کر دیتا ہے اور ایک فسق وہ ہے جو ملت سے خارج نہیں کرتا تو اللہ نے کافر کو بھی فاسق قرار دیا اور مسلمانوں میں سے فاسق کو بھی فاسق قرار دیا ہے۔ اللہ نے ابلیس کا بیان کر کے فرمایا: ’’سو اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔‘‘ اور ابلیس کا فسق کفر تھا۔‘‘ 2 ایک اور مقام پر فرمایا: (وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ) (السجدۃ: 20) ’’اور رہے وہ لوگ جنھوں نے نافرمانی کی تو ان کا ٹھکانا آگ ہی ہے۔‘‘ امام طبری فرماتے ہیں: ’’و قولہ: (وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا )یقول تعالی ذکرہ: و أما الذین کفروا باللّٰہ، و فارقوا طاعتہ۔‘‘[2] ’’اور اللہ کا فرمان: ’’بہرحال وہ لوگ جنہوں نے نافرمانی کی۔‘‘ کا مطلب ہے: ’’بہرحال وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا اور اس کی اطاعت سے علیحدہ ہو گئے۔‘‘ امام محمد بن نصر المروزی اس آیت کریمہ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’یرید الکفار دل علی ذلک قولہ: (كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ( السجدۃ: 20) ’’اس آیت میں (فَسَقُوا )سے مراد کفار ہیں اس پر اللہ کا یہ فرمان دلیل ہے: ’’جب کبھی چاہیں گے کہ اس سے نکلیں اس میں لوٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا آگ کا وہ عذاب چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔‘‘[3] 3 ایک اور مقام پر فرمایا:
[1] ) کتاب الصلاۃ، ص: 169۔ [2] ) تفسیر الطبري: 18/626۔ [3] ) کتاب الصلوٰۃ ، ص: 170۔