کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 66
’’فالکفر المطلق ہو الظلم المطلق۔‘‘[1] ’’کفر مطلق ہی ظلم مطلق ہے۔‘‘ یہ جان لینا چاہیے کہ مطلق طور پر ظلم کا اطلاق کفر اکبر پر ہوتا ہے لیکن یہ اس کے ساتھ خاص نہیں بلکہ بسا اوقات کفر اصغر اور معاصی پر بھی ظلم کا اطلاق ہوتا ہے۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ )(فاطر: 32) ’’پھر ہم نے اس کتاب کے وارث اپنے وہ بندے بنائے جنھیں ہم نے چن لیا، پھر ان میں سے کوئی اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے اور ان میں سے کوئی میانہ رو ہے اور ان میں سے کوئی نیکیوں میں آگے نکل جانے والا ہے، اللہ کے حکم سے۔ یہی بہت بڑا فضل ہے۔‘‘ اس آیت میں اللہ کے مختار اور چنے ہوئے مسلمان بندوں کا ذکر ہے جن میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والوں کا بھی ذکر ہے اور یہ ظلم اصغر ہے جو ذنوب و معاصی کو شامل ہے۔ اسی طرح کئی اور آیات کریمہ میں ظلم کا اطلاق معصیت و خطا پر ہوا ہے۔ سیدنا آدم و سیدتنا حوائ علیہ السلام کے بارے میں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا: ( قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ) (الاعراف: 23) ’’دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہو جائیں گے۔‘‘ اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ( قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ) (القصص: 16) ’’کہااے میرے رب! یقینا میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، سو مجھے بخش دے۔ تو اس نے اسے بخش دیا، بے شک وہی تو بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا:
[1] ) مجموع الفتاوی لإبن تیمیۃ: 7/74۔