کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 63
اور نماز کی ادائیگی کا حکم دیا جائے گا اور اسے تعذیر لگائی جائے گی یہاں تک کہ وہ نماز ادا کرنے لگ جائے اور صحیح بات یہ ہے کہ وہ ہرگز کافر نہیں ہے۔ اس لیے کہ کفر جحود و انکار کا نام ہے جیسا کہ بحث گزر چکی ہے اور وہ ہرگز انکار نہیں ہے اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خمس صلوات افترضہن اللّٰہ سبحانہ علی العباد فمن جاء بہن لم یضیع منہن شیئا، کان لہ عند اللّٰہ عہد أن یغفر لہ، و من لم یأت بہن، فلیس لہ عند اللّلہ عہد؛ إن شاء غفر لہ، و إن شاء عذبہ۔)) ’’فہذا ینص علی أن ترک الصلاۃ لیس بکفر، و أنہ مما دون الشرک الذي قال اللّٰہ تعالی فیہ (إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا )(النسائ: 48)‘‘ [1] ’’پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کی ہیں جو کوئی انہیں ادا کرے گا ان میں کچھ بھی ضائع نہیں کرے گا اس کے لیے اللہ کے ہاں عہد ہے کہ وہ اسے بخش دے گا اور جس نے ان کی ادائیگی نہ کی تو اس کے لیے اللہ پر کوئی عہد نہیں اگر اللہ چاہے تو اسے بخش دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘ یہ اس بات پر نص ہے کہ نماز کا ترک ہرگز کفر نہیں ہے اور وہ اس شرک سے چھوٹا جرم ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے۔‘‘ امام قرطبی نے جو حدیث ’’خمس صلوات …‘‘ بیان کی ہے یہ حدیث صحیح ہے۔[2] اسی طرح قاضی عیاض نے بھی ’’إکمال المعلم بفوائد مسلم‘‘ میں اہل علم کا یہ اختلاف بیان کیا ہے۔[3] مزید بحث مطولات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ لہٰذا جن کے ہاں تارک صلاۃ کافر ہے ان کے نزدیک یہ کفر اکبر ہے اور جن کے نزدیک کافر نہیں ہے ان کے نزدیک کفر اصغر ہے۔
[1] ) المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم: 1/271-272، ط: دار ابن کثیر دمشق بیروت۔ [2] ) مسند احمد: 37/366، رقم: 22693۔ المصنف ابن ابی شیبۃ: 2/296، 14/235-236۔ مسند الدارمي: 1577۔ مسند الشاشي: 1281۔ المؤطا لمالک: 1/123۔ المصنف لعبد الرزاق: 4575۔ مسند الحمیدي: 388۔ سنن أبي داود: 1420۔ سنن النسائي: 462۔ شرح مشکل الآثار: 3167، 3168۔ مسند الشامیین: 2181، 2182، 2183۔ سنن ابن ماجہ: 1401۔ صحیح إبن حبان: 252، 253۔ بیہقي: 1/361، 2/8، 467، 10/217۔ شرح السنۃ للبغوي: 977۔ المعجم الکبیر للطبراني: 2182، 2184، 2186۔ حلیۃ الأولیائ: 5/126۔ ان کتب میں مختلف طرق سے مروی ہے۔ [3] ) إکمال المعلم بفوائد مسلم: 1/343-344۔