کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 47
جھک جاتے ہیں اور جب ہوا رک جاتی ہے تو پتے بھی برابر ہو جاتے ہیں اور کافر کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے کہ ایک حالت پر کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ جب چاہتا ہے اسے اکھاڑ دیتا ہے۔‘‘ اس حدیث میں مومن اور کافر کی مثال دے کر یہ سمجھایا گیا ہے کہ مومن نرم و نازک کھیتی کی طرح ہے جس کے پتے ہوا کے رخ پر مڑ جاتے ہیں اسی طرح مومن ہر حکم الٰہی کے آگے سرنگوں ہو جاتا ہے اور اللہ کے ہر حکم کی اطاعت کرتا ہے، جبکہ کافر صنوبر کے درخت کی طرح ہے جو احکام الٰہی کے آگے جھکنا اور مڑنا جانتا ہی نہیں یہاں تک کہ آفات و بلیات اور عذاب الٰہی موت و زلزلے وغیرہ کی صورت میں آتا ہے اور اسے ایک دَم جہنم کی طرف موڑ دیتا ہے۔ المہلب شارح بخاری لکھتے ہیں: ’’معنی الحدیث أن المؤمن حیث جاء ہ أمر اللّٰہ أنطاع لہ فإن وقع لہ خیر فرح بہ و شکر و إن وقع لہ مکروہ صبر و رجا فیہ الخیر و الأجر فإذا اندفع عنہ اعتدل شاکرا و الکافر لا یتفقدہ اللّٰہ بإختیارہ بل یحصل لہ التیسیر في الدنیا لیتعسر علیہ الحال في المعاد حتی إذا أراد اللّٰہ إہلاکہ قصمہ فیکون موتہ أشد عذابا علیہ و أکثر ألما في خروج نفسہ۔‘‘[1] ’’اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مومن کے پاس جہاں سے بھی اللہ کا حکم آتا ہے وہ اس کی اطاعت کرتا ہے اگر اس کے لیے کوئی خیر واقع ہو تو اس پر خوش ہو جاتا ہے اور شکر کرتا ہے اور اگر اس کے لیے کوئی ناپسندیدگی واقع ہوتی ہے تو صبر کرتا ہے اور اس میں خیر اور اجر کی امید رکھتا ہے پھر جب وہ چیز اس سے زائل ہو جاتی ہے تو شکر کرتے ہوئے معتدل ہو جاتا ہے بہرحال کافر کو اللہ امتحان کی چھلنی سے نہیں گزارتا بلکہ اس کو دنیا میں آسانی حاصل ہوتی ہے تاکہ قیامت والے دن اس پر تنگی ہو یہاں تک کہ جب اللہ اس کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتا ہے تو اسے توڑ دیتا ہے۔ اس کی موت اس پر سخت ترین عذاب کی صورت میں واقع ہوتی ہے اور اس کا سانس نکلنے میں بہت زیادہ دردناک شکل اختیار کر لیتی ہے۔‘‘ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر اکبر کے مرتکب پر کافر کے لفظ کا اطلاق کیا ہے۔
[1] ) فتح الباري: 13/12-11، ط: دار طیبۃ۔ 10/107، ط: سلفیۃ۔ شرح ابن بطال: 9/373۔