کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 38
اس کا انکار کرنا کفر کہلاتا ہے اور جن لوگوں کے سامنے حق آیا ہی نہیں وہ غلط راستہ یعنی گمراہی پر تو ہیں لیکن انہیں کافر نہ کہا جائے گا بلکہ ان کا شمار ضالین میں سے ہو گا یعنی گمراہ۔ کفر کتنے طریقوں سے ممکن ہے…؟ کفر بنیادی طور پر ایمان کے مقابلے میں آتا ہے لہٰذا ایمان جتنے طریقوں سے ممکن ہے کفر بھی اتنے ہی طریقوں سے ممکن ہے ایمان بنیادی طور پر تین چیزوں سے تعبیر ہے یعنی ان تین چیزوں یا اراکین میں سے ایک رکن بھی موجود نہ ہو تو ایمان مکمل نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات ہوتا ہی نہیں یعنی ((التصدیق بالقلب، الاقرار باللسان و العمل بالجوارح))…’’ دل سے تصدیق اور زبان سے اس تصدیق کا اعتراف و اقرار پھر عمل سے اس تصدیق اور اعتراف کی گواہی۔‘‘ ایمان کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں: ’’و ہو قول و عمل و یزید و ینقص.‘‘[1] ’’ایمان قول اور عمل کا نام ہے اور وہ بڑھتا بھی ہے اور کم بھی ہوتا ہے۔‘‘ قول سے مراد شہادتین کا اقرار اور عمل سے راد دل اور جوارح کا عمل ہے تاکہ اس میں اعتقاد اور عبادات داخل ہو جائیں۔[2] حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فالسلف قالوا: ہو إعتقاد بالقلب و نطق باللسان و عمل بالأرکان و أرادوا بذلک أن الأعمال شرط في کمالہ۔‘‘[3] ’’سلف صالحین نے کہا ہے کہ ایمان دل کے ساتھ اعتقاد، زبان کے ساتھ اقرار اور ارکان کے ساتھ عمل کا نام ہے اور ان کی مراد یہ ہے کہ اعمال تکمیل ایمان کی شرط ہیں۔‘‘ امام حسین بن مسعود البغوی (المتوفی 516ھ) فرماتے ہیں: ’’اتفقت الصحابۃ و التابعون، فمن بعدہم من علماء السنۃ علی أن الأعمال من الإیمان، … و قالوا: إن الإیمان قول، و عمل، و عقیدۃ، یزید بالطاعۃ، و ینقص بالمعصیۃ علی ما نطق بہ القرآن في الزیادۃ، و جاء في الحدیث
[1] ) صحیح البخاري، کتاب الإیمان مع فتح الباري: 1/93، ط: دار طیبہ. [2] ) فتح الباري لإبن حجر: 1/94. [3] ) فتح الباري لإبن حجر: 1/94.