کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 297
رسولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم و ہذا فیہ التحذیر من ہذا الأمر الجلل و ہو مخالفۃ ما ثبت بدلیل إلی الہوی أو إلی غیر دلیل لہذا یقول العلمائ: من ثَبَتَ إیمانہ بدلیل أو بیقین لم یزل عنہ اسم الإیمان بمجرد شُبْہَۃٍ عَرَضَتْ أو تَأْوِیْلٍ بَأوَّلَہ، بل بد من حُجَّۃٍ بَیِّنَۃٍ لإخراجہ من الإیمان، کما یقول إبن تیمیۃ و لا بد من إقامۃ حجۃ تقطع عنہ المعذرۃ۔‘‘[1] ’’بلاشبہ کسی معین شخص کے بارے میں اسلام و ایمان دلیل شرعی سے ثابت ہو تو وہ اسلام میں دلیل کے ساتھ داخل ہوا تو اسے دین اسلام سے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حجت کے بغیر نکالنا یہ اللہ پر علم کے بغیر بات کہنا اور حدود اللہ سے تجاوز اور اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنا ہے اس میں اس خطرناک معاملے سے ڈرایا گیا ہے اور یہ جو چیز دلیل سے ثابت ہے اس کی مخالفت خواہش یا دلیل کے بغیر ہے۔ اسی لیے علماء کہتے ہیں جس کا ایمان دلیل یا یقین سے ثابت ہو اس سے صرف پیش آمدہ شبہ یا تاویل کی وجہ سے ایمان کا نام زائل نہ ہو گا جیسا کہ امام ابن تیمیہ کہتے ہیں اور اسی حجت قائم کرنا ضروری ہے جو اس سے ہر طرح کا عذر ختم کر دے۔‘‘ خلاصۃ القول 1 تکفیر معین کے لیے نصوص قطعیہ اور واضح ہونی چاہئیں۔ 2 تکفیر صرف اس کی جائے جو اس کا حقیقی مستحق وہ گا۔ 3 جس کی تکفیر پر اہل سنت و جماعت متفق ہوں گے وہی تکفیر کا مستحق ہو گا۔ 4 تکفیر کے لیے جو دلائل استعمال ہوں ان کا کوئی معارض نہ ہو۔ تم الفراغ منہ بحمد اللّٰہ و منہ و فضلہ و کرمہ و جودہ و سخائہ۔ یوم الجمعۃ 1 مایو 2015م الموافق 12 رجب 1436ھـ فی الساعۃ الثامنۃ صباحا ابو الحسن مبشر احمد ربانی عفا اللہ عنہ
[1] ) جامع شروح العقیدۃ الطحاویۃ:1/741 ط: دار ابن الجوزی۔