کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 296
نص نہ ہو۔‘‘ اور فقہاء حنفیہ میں سے امام زرکشی فرماتے ہیں: ’’ہمارے پاس اصل جو ہے وہ ایمان ہے ہم اس کو بغیر یقین کے ختم نہیں کر سکتے۔‘‘[1] اور آخر میں قاضی ابن ابی العز الحنفی کی مشہور کتاب شرح عقیدہ الطحاویہ کی عبارت ملاحظہ ہوں: ’’و اعلم رحمک اللّٰہ و إیانا أن باب التکفیر و عدم التکفیر باب عظمت الفتنۃ و المحنۃ فیہ و کثر فیہ الإفتراق و تشتت فیہ الأہواء و الآراء و تعارضت فیہ دلائلہم۔‘‘[2] ’’جان لے اللہ تجھ پر بھی رحم کرے اور ہم پر بھی بلاشبہ تکفیر اور عدم تکفیر کا باب ایسا ہے جس کی وجہ سے فتن اور ابتلاء بہت بڑھ گئی ہے اور اس کی وجہ سے افتراق بڑھ گیا ہے اور خواہشات و آراء بکھر گئی ہیں اور ان کے دلائل میں تعارض واقع ہوا ہے۔‘‘ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’فإنہ من أعظم البغي أن یشہد علی معین أن اللّٰہ لا یغفر لہ و لا یرحمہ بل یخلدہ في النار فإن ہذا حکم الکافر بعد الموت۔‘‘[3] ’’سب سے بڑی بغاوت اور سرکشی یہ ہے کہ کسی معین شخص پر یہ گواہی دی جائے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف نہیں کرے گا اور نہ اس پر رحم کرے گا بلکہ اس کو ہمیشہ کے لیے جہنم رسید کر دے گا تو یہ موت کے بعد کافر ہونے کا حکم ہے۔‘‘ (جس کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں ور ہم جلد بازی میں فتویٰ اور فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔) علامہ صالح آل شیخ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’أنَّ الإسلام و الإیمان ثَبَتَ في حق الشخص -في حق المعین- بدلیل شرعي، فَدَخَلَ في الإسلام بدلیل، فإخراجہ منہ بغیر حجۃ من اللّٰہ -عزوجل- أو من رسولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم ہذا من القول علی اللّٰہ بلا علم و من التعدي -من تعدي حدود اللّٰہ-، و من التقدم بین یدي اللّٰہ عزوجل و بین یدي
[1] ) تحفۃ المحتاج لزرکشی: 2/84۔ [2] ) شرح العقید الطحاویۃ: 2/482، ط: مؤسسۃ الرسالۃ: 1/732، ط: دار ابن الجوزي۔ [3] ) شرح العقیدۃ الطحاویۃ: 2/485، ط: مؤسسۃ الرسالۃ: 1/737، ط: دار ابن الجوزي۔