کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 295
کتکفیر من عبدالصالحین و دعاہم مع اللّٰہ، و جعلہم أندادًا فیما یستحقہ علی خلقہ من العبادات و الإلہیۃ۔‘‘[1] ’’محمد بن عبدالوہاب کسی کی تکفیر نہیں کرتے مگر شرک اکبر کے مرتکب اور اللہ کی آیات اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر یا ان میں سے کسی چیز کے ساتھ کفر جس پر مسلمانوں کا اجماع ہے اور یہ بھی قیام حجت اور معتبر بلوغ حجت کے بعد جیسے اس شخص کی تکفیر جس نے صالحین کی عبادت کی اور اللہ کے ساتھ ان کو بھی پکارا اور عبادات و الوہیت میں ان کو حصہ دار بنایا جو کہ اللہ کی مخلوق پر حق ہے۔‘‘ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’و الشیخ رحمہ اللّٰه علیہ لم یکفر إلا من کفرہ اللّٰہ و رسولہ، و أجمعت الأمۃ علی کفرہ، کمن اتخذ الآلہۃ و الأنداد لرب العالمین۔‘‘[2] ’’شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے صرف اسے کافر کہا ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے کافر قرار دیا اور اس کے کفر پر امت کا اجماع ہو گیا جیسے وہ شخص جو اللہ رب العالمین کے لیے الٰہ اور حص دار بنا لیتا ہے۔‘‘ شیخ سلیمان بن سحمان شیخ محمد بن عبدالوہاب کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’فلا یکفر إلا من کفرہ اللّٰہ و رسولہ و أجمع علی تکفیرہ الأمۃ۔‘‘[3] ’’انہوں نے صرف اس کی تکفیر کی ہے جس کی تکفیر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے او اس کی تکفیر پر امت کا اجماع ہے۔‘‘ ائمہ نجد کے فتاوی میں مرقوم ہے: ’’فما تنازع العلماء في کونہ کفرا، فالإحتیاط للدین التوقف و عدم الإقدام، ما لم یکن في المسألۃ نص صریح عن المعصوم صلی اللّٰه علیہ وسلم ۔))[4] ’’جس کے کفر ہونے میں علماء کا آپس میں اختلاف ہو تو دین کے لیے احتیاط یہ ہے کہ اس میں توقف کیا جائے اور جلدی نہ کی جائے جس تک اس مسئلہ میں نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صریح۔
[1] ) مجموع الرسائل: 3/5۔ دعاوی المناوئین، ص: 225۔ [2] ) مجمزعۃ الرسائل: 3/449۔ دعاوی المناوئین: 225۔ [3] ) السنۃ الحداد في الرد علی علوي الحداد، ص: 56-57۔ دعاوی المناوئین، ص: 227 [4] ) الدرر السنۃ: 10/375۔