کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 294
’’اہل السنہ و الجماعۃ جو کہ اہل الفقہ و الاثر ہیں، کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی شخص کو اس کا گناہ اگرچہ وہ بڑا ہو اسلام سے خارج نہیں کرتا اور اہل البدع نے ان کی مخالفت کی ہے یقینی طور پر واجب ہے کہ کسی شخص کی تکفیر نہ کی جائے مگر جس کی تکفیر پر سب متفق ہوں یا اس کی تکفیر پر کتاب یا سنت کی ایسی دلیل قائم ہو جس کا کوئی معارض و مقابل نہ ہو۔‘‘ امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’و الحق ہو أن کل من ثبت لہ عقد الإسلام فإنہ لا یزول عنہ إلا بنص أو إجماع و أما بالدعوۃ و الافتراء فلا۔‘‘[1] ’’حق بات یہ ہے کہ ہر شخص جس کا اسلام کا عہد ثابت ہو جائے تو وہ اس سے نص شرعی یا اجماع کے بغیر زائل نہیں ہوتا، بہرکیف دعویٰ اور افترا پردازی سے اس کا اسلام زائل اور ختم نہیں ہوتا۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ’’و من ثبت إسلامہ بیقین لم یزل ذلک عنہ بالشک۔‘‘[2] ’’اور جس شخص کا اسلام یقین کے ساتھ ثابت ہو جاتا ہے وہ اس سے شک کے ساتھ ختم نہیں ہوتا۔‘‘ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’و من ثبت إیمانہ بیقین لم یزل ذلک عنہ بالشک۔‘‘[3] ’’اور جس کا ایمان یقین کے ساتھ ثابت ہو جائے تو وہ اس سے شک کے ساتھ زائل نہیں ہوتا۔‘‘شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’و لا نکفر إلا ما أجمع علیہ العلماء کلہم۔‘[4] ’’اور جب تک تمام علماء جمع نہ ہو جائیں ہم کسی کی تکفیر نہیں کرتے۔‘‘ شیخ عبداللطیف آل شیخ رحمہ اللہ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’فإنہ لا یکفر إلا بما أجمع المسلمون علی تکفیر فاعلہ من الشرک الأکبر، و الکفر بآیات اللّٰہ و رسلہ ، أو بشيء منہا بعد قیام الحجۃ و بلوغہا المعتبر
[1] ) الفصل لإبن حزم: 2/268۔ [2] ) مجموع الفتاوی لإبن تیمیۃ: 12/466۔ [3] ) مجموع الفتاوی لإبن تیمیۃ: 12/501۔ [4] ) الدرر السنیۃ: 1/102۔