کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 289
میں سے کوئی شعبہ جیسا کہ صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار خصلتیں جس میں پائی جائیں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت پائی گئی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے جب بات کرے جھوٹ بولے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے اور جب عہد کرے تو غدر کرے اور جب جھگڑے تو گالی گلوچ کرے اور صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص مر گیا اس حال میں کہ اس نے جہاد نہیں کیا اور نہ ہی اپنے نفس سے جہاد کی بات بیان کی وہ نفاق کے ایک شعبے پر مرا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہوا کہ مسلمان میں ایمان اور نفاق جمع ہو سکتے ہیں۔ شیخ الاسلام نے مجموع الفتاوی میں مذکورہ مقام کے بعد کئی ایک کتاب و سنت کی نصوص ذکر کی ہیں جو کہ لائق مطالعہ ہیں۔ پھر اس بحث کے آخر میں رقمطراز ہیں: ’’و نظائر ہذا موجودۃ في الأحادیث۔ و قال إبن بعاس و غیر واحد من السلف في قولہ تعالی: ( وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ) و( فَأُولَئِكَ هُمُ اَلْفَا سِقُوْنَ) و( الظَّالِمُونَ )کفر دون کفر، و فسق دون فسق و ظلم دون ظلم۔‘‘ ’’احادیث میں اس کی کئی نظیریں موجود ہیں اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور بہت سارے سلف صالحین نے اللہ کے اس فرمان کے بارے میں کہا: ’’اور جس نے اللہ کے نازل کردہ دین کے ساتھ فیصلہ نہ کیا وہ کافر ہیں‘‘ اور ’’وہ فاسق ہیں‘‘ اور ’’ظالم ہیں۔‘‘ یہ کفر دون کفر، فسق دون فسق اور ظلم دون ظلم ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ ایک آدمی میں ایمان کے ساتھ کفر، فسق اور ظلم جمع ہو سکتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’لم یکن المتہمون بالنفاق نوعا واحدا بل فیہم المنافق المحض، و فیہم من فیہ إیمان و نفاق، و فیہم من إیمانہ غالب و فیہ شعبۃ من النفاق، و کان کثیر ذنوبہم بحسب ظہور الإیمان، و لما قوي الإیمان و ظہر الإیمان و قوتہ عام تبوک، صاروا یعاتبون من النفاق علی ما لم یکونوا یعاتبون علیہ