کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 287
اور وہ مومن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن یا مسلم‘‘ یہاں تک کہ سعد رضی اللہ عنہ نے اس بات کو تین مرتبہ دھرایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے: ’’أو مسلم‘‘ پھر فرمایا: ((إني لأعطي رجالا و أدع من ہو أحب إلي منہم فلم أعطیہ شیئا؛ مخافۃ أن یکبوا في النار علی وجوہہم۔))[1] ’’بلاشبہ میں مردوں کو دیتا ہوں اور ان میں سے جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہوں، اسے کچھ نہیں دیتا اس خوف کی وجہ سے کہ وہ آگ میں چہروں کے بل ڈال دئیے جائیں۔‘‘ امام ابن کثیر رحمہ اللہ یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’و دل ذلک علی أن ذاک الرجل کان مسلما لیس منافقًا؛ لأنہ ترکہ من العطاء و وکلہ إلی ما ہو فیہ من الإسلام، فدل ہذا علی أن ہؤلاء الأعراب المذکورین في ہذہ الآیۃ لیسوا بمنافقین، و إنما ہو مسلمون لم یستحکم الإیمان في قلوبہم، فادعوا لأنفسہم مقاما أعلی مما وصلوا إلیہ، فأدبوا في ذلک، و ہذا معنی قول إبن عباس و إبراہیم النخعي، و قتادۃ، و اختارہ إبن جریر۔‘‘[2] ’’اس حدیث نے اس بات پر دلالت کی ہے کہ وہ آدمی مسلمان ہے منافق نہ تھا اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے عطیہ ترک کر دیا اور اس کو اسلام کی طرف سپرد کر دیا جو اس میں تھا، پس یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ آیت مذکورہ بدوی ہرگز منافقین نہ تھے وہ محض مسلمان تھے ان کے دلوں میں ایمان مستحکم نہیں ہوا تھا انہوں نے اپنے لیے اس مقام سے اعلیٰ کا دعویٰ کر دیا جس تک وہ پہنچے تھے انہیں اس میں ادب سکھایا گیا اور یہی مفہوم عبداللہ بن عباس، ابراہیم النخعی اور قتادہ کے اقوال کا ہے اور امام ابن جریر طبری نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے۔‘‘
[1] ) تفسیر إبن کثیر: 5/665۔ صحیح البخاري: 27۔ صحیح مسلم: 150/237۔ سنن أبي داود: 4683۔ تفسیر الطبري: 21/389۔ سنن النسائي: 5007۔ تفسیر عبدالرزاق: 2/234۔ مسند الحمیدي: 68/69۔ مسند أبي یعلی: 714/778۔ صحیح ابن حبان: 163۔ حلیۃ الأولیائ: 6/191۔ مسند عبد بن حمید: 140۔ مسند البزار: 1087۔ تعظیم قدر الصلاۃ للمروزي: 560۔ کتاب الإیمان لابن مندۃ: 161/162۔ شرح أصول إعتقاد أہل السنۃ و الجماعۃ: 1494، 1495۔ تہذیب الآثار للطبري مسند إبن عباس، ص: 680۔ مسند الشاشي: 89۔ مسند الإمام أحمد: 3/107، رقم: 1522۔ [2] ) تفسیر ابن کثیر: 5/666۔