کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 286
شرک خفی ہے جو اللہ پر توکل اور اعتماد کو ترک کرنے کی وجہ سے پیدا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا کئی لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود کفریہ اور شرکیہ افعال سرانجام دے جاتے ہیں۔‘‘ اور ایک جگہ فرمایا کہ: (قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ)( وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ) (الحجرات: 14) ’’بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے، کہہ دے تم ایمان نہیں لائے اور لیکن یہ کہو کہ ہم مطیع ہوگئے اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو گے تو وہ تمھیں تمھارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا، بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ امام المفسرین ابو جعفر محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ذُکر أن ہذہ الآیۃ نزلت في أعراب من بني أسد۔‘‘[1] ’’یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ آیت بنواسد کے بدویوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے پھر اس پر مجاہد بن جبر رحمہ اللہ کا قول لائے کہ ’’أعراب بني أسد بن خُزَیمۃ۔‘‘[2] اس سے مراد بنو اسد بن خزیمہ کے بدوی ہیں۔ یہی بات امام ابو الفرج عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ’’زاد المسیر فی علم التفسیر‘‘ (4/154) میں۔ قاضی محمد بن محمد العمادی الحنفی نے ’’تفسیر ابی السعود‘‘ (6/185) وغیرہما نے لکھی ہے۔ اسی طرح قتادہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ آیت بدوئوں کے قبائل میں سے اس قبیلے کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسلام لانے کا احسان جتلایا اور کہا ہم اسلام لائے اور آپ کے ساتھ اس طرح نہیں لڑے جیسے فلاں فلاں قبیلے کے لوگ لڑے۔[3] اسی طرح سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں میں مال تقسیم کیا اور ان میں ایک آدمی کو کچھ بھی نہ دیا سعد نے کہا یا رسول اللہ آپ نے فلاں فلاں کو دیا ہے اور فلاں کو کچھ نہیں
[1] ) ‎تفسیر الطبري: 21/388۔ [2] ) تفسیر الطبري: 21/388۔ [3] ) تفسیر الطبري: 21/391، تفسیر الدر المنثور و غیرہما۔