کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 284
’’بلاشبہ عبداللہ کے گھر والے شرک سے بے نیاز ہیں۔‘‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ’’إن الرقي و التمائم و التولۃ شرک۔‘‘ ’’بے شک دم جھاڑ، گنڈے منکے اور شوہر کی محبت حاصل کرنے کے جادو شرک ہیں۔‘‘ میں نے ان سے کہا: آپ یہ کیوں کہہ رہے ہیں، میری آنکھ میں تکلیف ہوتی تھی تو میں فلاں یہودی کے پاس جاتی تھی وہ اس کو دم جھاڑ کرتا تھا تو میری آنکھ سکون میں آ جاتی تھی۔ فرمایا: ’’إنما ذلک من الشیطان۔‘‘ ’’یہ شیطانی عمل میں سے ہے۔‘‘ وہ اس آنکھ میں اپنا ہاتھ مارتا تھا جب وہ دم جھاڑا کرتا تھا تو شیطان تک جاتا تھا تجھے تو اتنا ہی کافی ہے کہ تو اس طرح کہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ((أذہب البأس رب الناس إشف أنت الشافي لا شفاء الا شفاء ک شفاء لا یغادر سقما۔))[1] ’’دکھ دُور کر دے اے لوگوں کے رب شفا عطا کر تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں ہے، ایسی شفا عطا کر جو کوئی بھی دکھ باقی نہ رہنے دے۔‘‘ فضیلۃ الشیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ تعالیٰ اس حدیث کے فوائد و مسائل میں ایک فائدہ یہ ضبط تحریر میں لائے ہیں: ’’التمائم جمع تمیمۃ و ہي خرزات کانت العرب تعلقہا علی أولادہم یتقون بہا العین في زعمہم۔‘‘[2] ’’یعنی وہ منکے جو عرب لوگ اپنے بچوں کو نظربد سے بچانے کے لیے پہناتے تھے تمیمہ اور تمائم کہلاتے ہیں۔‘‘ اس معنی میں وہ کوڑیاں، منکے، پتھر، لوہا، چھلے، انگوٹھیاں، لکڑی اور دھاگے وغیرہ سب چیزیں شامل ہیں
[1] ) تفسیر إبن کثیر: 3/610۔ مسند أحمد: 6/110، رقم: 3615۔ ابو داود: 3883۔ مسند أبي یعلی: 5208۔ شرح السنۃ: 12/156-157، رقم: 3240۔ المستدرک للحاکم: 4/417-418، رقم: 2/217۔ اس حدیث کو حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے لیکن اس میں اعمش کا عنعنہ ہے۔ [2] ) النہایۃ لإبن اثیر، ج: 1۔