کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 276
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’وہا ہنا أصل آخر و ہو أنہ لا یلزم من قیام شعبۃ من شعب الإیمان بالعبد أن یسمی مؤمنا و إن کان ما قام بہ إیمانا و لا من قیام شعبۃ من شعب الکفر بہ أن یسمی کافرا و إن کان ما قام بہ کفرا کما أنہ لا یلزم من قیام جزء من أجزاء العلم بہ أن یسمی عالما و لا من معرفۃ بعض مسائل الفقہ و الطب أن یسمی فقہیا و لا طبیبا و لا یمنع ذلک أن تسمی شعبۃ الإیمان إیمانا و شعبۃ النفاق نفاقا و شعبۃ الکفر کفرا و قد یطلق علیہ الفعل کقولہ فمن ترکہا فقد کفر۔‘‘[ کتاب الصلاۃ و حکم تارکہا، ص: 58-59] ’’اور یہاں ایک اور اصل ہے اور وہ یہ ہے کہ ایمان کے شعبوں میں سے کسی ایک شعبہ کے قیام سے بندے کا مومن ہونا لازم نہیں آتا اگرچہ وہ جس شعبہ کے ساتھ قائم ہے وہ ایمان ہے اور نہ ہی کفر کے شعبوں میں کسی شعبے کے قیام سے بندے کا کافر ہونا لازم آتا ہے اگرچہ جس شعبے کے ساتھ وہ قائم ہے وہ کفر ہے جیسا کہ علم کے اجزاء میں سے کسی جزء کے قیام سے عالم ہونا لازم نہیں آتا اور نہ ہی بعض فقہی اور طبی مسائل کی معرفت سے بندے کو فقیہ اور طبیب کہا جاتا ہے اور نہ ہی یہ اصول ہمیں ایمان کے شعبے کو ایمان اور نفاق کے شعبے کو نفاق اور کفر کے شعبے کو کفر کہنے سے روکتا ہے حالانکہ اس پر فعل کا اطلاق ہوتا ہے جیسا کہ آپ کا فرمان ہے: ’’جس نے نماز ترک کی یقینا اس نے کفر کیا۔‘‘ اور ’’جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی تو یقینا اس نے کفر کیا۔‘‘ اور آپ کا فرمان ’’جو کسی کاہن کے پاس آیا اور اس کے قول کی تصدیق کی تو یقینا اس نے کفر کیا۔‘‘