کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 27
ضروری ہے جس کا کام ہی ہر وقت حکومت پر تنقید اور اس کے خلاف لوگوں کو خروج و بغاوت پر آمادہ کرنا ہے تاکہ وہ حکومت ناکام اور لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہو جائے اور پھر وہ خود اس کی جگہ اقتدار پر فائز ہو جائے۔ اسلام میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار کا یہ تصور نہیں ہے سب ایک ہی امت ہے، ایک ہی کشتی کے سوار ہیں جن کے مفادات اور مقاصد بھی ایک ہی ہیں اور حکمرانوں کی کوتاہیوں کے باوجود عوام کو ان کے خلاف خروج و بغاوت پر آمادہ کرنا جرم ہے کیونکہ ہر چند سالوں کے بعد عام انتخابات پر قوم کے کروڑوں بلکہ اربوں روپے برباد کر دینا اور گلی گلی کوچے کوچے بلکہ گھر گھر میں انتشار و تفریق کے بیج بونا بھی اسلامی تعلیمات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ اسلام میں حکمرانی کے لیے چند سالوں کی حد مقرر نہیں ہے اور نہ وہ جلد جلد حکمرانوں کے عزل و نصب کو پسند ہی کرتا ہے۔ ان کی کوتاہیوں کو برداشت کرنے کی تاکید میں بھی یہی حکمت ہے تاکہ ایک حکمران کو حکومت کرنے کا زیادہ سے زیادہ وقت ملے کہ اسی میں عوام کا بھی مفاد ہے اور ملک کا استحکام بھی۔ کاش لوگ مغربی جمہوریت کے اس فریب اور سراب سے نکلیں اور اسلامی ہدایات کی روشنی میں اپنا نظام حکومت ترتیب دیں۔‘‘ (1/617طبع جدید) ان اقتباسات سے راقم کے اس نقطہ نظر کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جو موجودہ حکمرانوں کے بارے میں ہے راقم کے جس اقتباس سے حکمرانوں کے ’’مرتد‘‘ ہونے کے مفہوم کو اخذ کیا گیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرما لیں: ’’مرد و عورت کے بے باکانہ اختلاط کو اسلام کس طرح گوارا کر سکتا ہے جو مغرب میں عام ہے اور یہی اخلاق باختہ ثقافت (بلکہ کثافت) ٹیلی ویژن کے ذریعے سے اسلامی ملکوں میں پھیلائی جا رہی ہے۔ مغرب زدہ حکمران اس گندگی، بے حیائی اور اخلاق باختگی کو ’’ثقافت‘‘ باور کرا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان مرتد حکمرانوں سے اسلامی ملکوں کو نجات عطا فرمائے۔‘‘ (2/513) ظاہر بات ہے اس سیاق میں مغرب زدہ مسلمان حکمرانوں کے لیے مرتد کا لفظ بطور فتویٰ کے نہیں ہے بلکہ ان کے ذہنی ارتداد کے اظہار کے لیے ہے اور یہ ذہنی ارتداد اس وقت بدقسمتی سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مالکان اور بیشتر کالم نگار اور طبقہ اشرافیہ میں بھی عام ہے جن میں حکمران طبقہ بھی شامل ہے لیکن یہ ذہنی ارتداد، وہ ارتداد نہیں ہے جس کی سزا قتل ہے۔ یہ تہدید و وعید کا ایک انداز ہے جس کی وضاحت ابتدائی سطور میں کی گئی ہے جیسے مسلمان عوام کے اخلاق و کردار کی پستی کو منافقت سے تعبیر کر لیا جاتا ہے جس سے وہ منافقت مراد نہیں ہوتی جس کی سزا قرآن میں (فيِ الدَّرْكِ الْاَ سْفَلِ مِنَ النَّارِ)بتلائی گئی ہے۔ قرآن کریم کی یہ آیت بھی اس مفہوم میں کتنی واضح ہے جس کی وضاحت ہم کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: