کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 269
(إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ )(الحجرات: 10) فبین أن ہؤلاء لم یخرجوا من الإیمان بالکلیۃ و لکن فیہم ما ہو کفر و ہي ہذہ الخصلۃ کما قال بعض الصحابۃ کفر دون کفر و کذلک قولہ: ’’من قال لأخیہ یا کافر فقد باء بہا أحدہما ’’فقد سماہ أخاہ حین القول و قد أخبر أن أحدہما باء بہا فلو خرج أحدہما عن الإسلام بالکلیۃ لم یکن أخاہ بل فیہ کفر۔‘‘[1] ’’اس اصل کی بنیاد پر بعض لوگوں کے ساتھ کفر کی شاخوں میں سے کوئی شاخ ہوتی ہے اور اسی طرح اس کے ساتھ کچھ ایمان بھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سارے گناہوں پر کفر کا لفظ وارد ہوا ہے۔ باوجود اس کے اس گناہ گار کے پاس ایمان ایک ذرے سے بھی زیادہ ہوتا ہے وہ ابدی جہنمی اور ناری نہیں ہوتا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ’’مسلم کو گالی دینا فسق اور اس کے ساتھ لڑائی کرنا کفر ہے۔‘‘ اور آپ کا فرمان: ’’میرے بعد کافر ہو کر نہ لوٹنا کہ بعض تمہارے بعض کی گردنیں مارنے لگیں۔‘‘ یہ حدیثِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحیح بخاری میں کئی اسانید سے مشہور و مستفیض ہے۔ آپ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر حکم دیا تھا کہ لوگوں میں اس کی منادی کرا دی جائے کہ جو کسی کی احق گردن مارتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کافر کا نام بولا ہے اور اس فعل کو کفر قرار دیا ہے اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور اگر مومنوں میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو تم ان کے درمیان صلح کروا دو۔‘‘ … اللہ کے اس فرمان تک … ’’صرف مومن بھائی بھائی ہیں۔‘‘ تو کھول کر بیان کر دیا کہ یہ لوگ بالکلیہ ایمان سے خارج نہیں ہوئے اور لیکن ان میں کفر کی ایک خصلت ہے جیسا کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کفر دون کفر مراد ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: ’’جس نے اپنے بھائی سے کہا: ’’اے کافر!‘‘ تو یہ ان دونوں میں سے ایک کے ساتھ لوٹ آئے گا، آپ نے بات کہتے وقت اسے بھائی قرار دیا تھا اور یقینا آپ نے خبر دی کہ ان دونوں میں سے ایک اس کے ساتھ لوٹ آئے گا، اگر ان دونوں میں سے ایک کلی طور پر اسلام سے خارج ہو گیا تو وہ اس کا بھائی نہیں ہے بلکہ اس میں کفر موجود ہے۔‘‘
[1] ) مجموع الفتاوی لإبن تیمیۃ: 7/355۔