کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 268
مسلمان و فیہ کفر دون الکفر الذي ینقل عن الإسلام بالکلیۃ کما قال الصحابۃ إبن عباس وغیرہ کفر دون کفر و ہذا قول عامۃ السلف … کما قال إبن عباس و أصحابہ فی قولہ: (وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ) (المائدۃ: 44) قالوا: ’’’کفر لا ینقل عن الملۃ و کفر دون کفر و فسق دون فسق و ظلم دون ظلم۔‘‘[1] ’’بلاشبہ لوگوں میں بعض اوقات وہ بھی ہوتے ہیں جس کے پاس ایمان کی شاخوں میں سے کوئی شاخ اور کفر یا نفاق کی شاخوں میں سے کوئی شاخ ہوتی ہے اور اسے مسلم کا نام دیا جاتا ہے جیسا کہ اس پر امام احمد نے نص ذکر کی اور کبھی مسلمان ہوتا ہے اور اس میں اس کفر سے جو اسلام سے مکمل طور پر خارج کر دیتا ہے چھوٹا کفر ہوتا ہے جیسا کہ عبداللہ بن عباس وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کہ کفر دون کفر بھی ہوتا ہے اور یہ عام سلف صالحین کا قول ہے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ان کے اصحاب نے اللہ کے اس فرمان: (وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ )(المائدۃ: 44) کے بارے میں کہا: یہ ایسا کفر ہے جو ملت اسلام سے خارج نہیں کرتا اور کفر دون کفر، فسق دون فسق اور ظلم دون ظلم ہے۔‘‘ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’و علی ہذا الأصل فبعض الناس یکون معہ شعبۃ من شعب الکفر و معہ إیمان أیضا و علی ہذا ورد عن النبي في تسمیۃ کثیر من الذنوب کفرا مع أن صاحبہا قد یکون معہ أکثر من مثقال ذرۃ من إیمان فلا یخلد في النار کقولہ: ((سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر۔)) و قولہ: ((لا ترجعوا بعدي کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض۔)) و ہذا مستفیض عن النبي في ’’الصحیح‘‘ من غیر وجہ فإنہ أمر في حجۃ الوداع أن ینادی بہ فی الناس فقد سمي من یضرب بعضہم رقاب بعض بلا حق کفارا و سمي ہذا الفعل کفرا و مع ہذا فقد قال تعالی: (وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا )(الحجرات: 9) الی قولہ:
[1] ) مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ: 7/350-351۔