کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 263
’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے چوپایہ، چوپائے کو صحیح سالم جنم دیتا ہے کیا تم اس میں کوئی کٹے ہوئے اعضاء والا محسوس کرتے ہو؟‘‘ مطلب یہ کہ چوپایہ جب چوپائے کو جنم دیتا ہے تو وہ پورے اعضاء والا صحیح سالم ہوتا ہے اس میں کوئی نقص نہیں ہوتا، نہ اس کے کان کٹے ہوئے ہوتے ہیں اور نہ دم اور نہ ہی دیگر اعضائ۔ کان کٹنے کا نقص یا دیگر نقائص بعد میں پیدا ہوتے ہیں۔اسی طرح انسان بھی سلیم الفطرت اور صحیح مزاج و طبیعت والا پیدا ہوتا ہے۔ باقی اس میں یہودیت، نصرانیت یا مجوسیت بعد میں ماحول کی وجہ سے سرایت کر جاتی ہے۔ اس لیے کسی بھی شخص پر حکم لگانے سے پہلے اس کے ماحول کو لازمی طور پر مدنظر رکھنا چاہیے۔ اسی طرح عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ألا إن ربي أمرني أن أعلمکم ما جہلتم مما علمني یومي ہذا کل مال نحلتہ عبدا حلال و إني خلقت عبادی حنفاء کلہم و إنہم أتتہم الشیاطین فاجتالتہم عن دینہم و حرمت علیہم ما أحللت لہم و أمرتہم أن یشرکوا بي ما لم أنزل بہ سلطانا۔))[1] ’’آگاہ رہو بلاشبہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے اس دن میں جو اس نے مجھے سکھایا ہے اس میں سے جس سے تم جاہل ہو تمہیں سکھا دوں (اور کہتا ہے) ہر وہ مال جو میں نے اپنے کسی بندے کو عطا کیا وہ اس کے لیے حلال ہے اور بے شک میں نے اپنے سب بندوں کو ایک طرف جھکنے والا پیدا کیا اور بلاشبہ ان کے پاس شیاطین آئے انہوں نے ان پر حرام کر دیا اور ان کو حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ شرک کریں جس کی میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔‘‘ یہ حدیث بھی بتلاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دین حنیف پر پیدا کیا پھر بعد میں شیاطین نے ان کو ورغلا و بہکا کر صراط مستقیم سے ہٹا دیا اور حرام امور میں واقع کر دیا اور لوگ اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگ گئے۔ ہو سکتا ہے کہ اس خامی یا عیب کو دُور کیا جا سکے، دین اسلام کا بنیادی اور اساسی مقصد سزائیں سنانا اور نافذ کروانا نہیں بلکہ اصلاح احوال کا داعی ہے، سزا بالکل آخری حد ہے جہاں وہ مکمل طور پر اس کا مستحق نظر آتا ہے اس اصول کی بنیاد آیت قرآنی:( فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ) (التغابن: 16) کہ اللہ سے ڈرو
[1] ) صحیح مسلم، کتاب الجنۃ : 63/2865۔ تفسیر ابن کثیر :2/379۔ صحیح ابن حبان: 653۔ فضائل القرآن للنسائی (95)۔ مسند احمد (17484) 19/33,32۔ المعجم الکبیر للطبرانی : 17/994۔ مسند الطیالسی (1079)۔ السنن الکبری للبیہقی :9/20۔