کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 262
(فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ )(الروم: 30) ’’پس تو ایک طرف کا ہوکر اپنا چہرہ دین کے لیے سیدھا رکھ، اللہ کی اس فطرت کے مطابق، جس پر اس نے سب لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی پیدائش کو کسی طرح بدلنا ( جائز) نہیں، یہی سیدھا دین ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یقول تعالی: فسدد وجہک و استمر علی الدین الذي شرعہ اللّٰہ لک، من الحنیفیۃ ملۃ إبراہیم، الذي ہداک اللّٰہ لہا، و کملہا لک غایۃ الکمال، و أنت مع ذلک لازم فطرتک السلیمۃ، التي فطر اللّٰہ الخلق علیہا، فإنہ تعالی فطر خلقہ علی معرفتہ و توحیدہ، و أنہ لا إلٰہ غیرہ، کما تقدم عند قولہ تعالی: (وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى) ( الأعراف: 172)‘‘ ’’اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے: ’’پس تو اپنے چہرے کو سیدھا رکھ اور اس دین پر ڈٹ جا جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے دین حنیف ملت ابراہیم سے مشروع بنایا، وہ جس کے لیے اس نے تجھے ہدایت دی اور تیرے لیے کمال کی انتہا تک پہنچا دیا اور تو اس کے ساتھ اپنی فطرت سلیمہ کو لازم پکڑ، جس پر اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اللہ نے مخلوق کو اپنی معرفت اور توحید پر پیدا کیا ہے اور اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، جیسا کہ اللہ کے اس فرمان (أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ) (الأعراف: 172) کے پاس بات گزر چکی ہے۔‘‘ اس تفصیل کے لیے تفسیر ابن کثیر (3/228-229، بتحقیق عبدالرزاق المہدی، ط: دار الکتاب العربی، سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 172) کے تحت بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے سلیم الفطرت پیدا کیا ہے۔ یہ صاف ستھرا اور پاکیزہ مزاج اور اچھی طبیعت لے کر دنیا میں وارد ہوا ہے۔ پس اس کے ماحول کی کثافتوں او رگندگیوں نے اسے آلودہ کر دیا اور اس کی معرفت توحید اور دین حنیف کی پہچان جاتی رہی یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی مدنظر رہے، ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((کل مولود یولد علی الفطرۃ فأبواہ یہودانہ أو ینصرانہ أو یمجسانہ کما تنتج البہمۃ بہیمۃ جمعاء ہل تحسون فیہا من جدعائ۔))