کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 26
ایک اور حدیث کا پہلا فائدہ ملاحظہ ہو اس حدیث میں بھی مسلمان حکمران کی اطاعت کا لازم ہونا اور اس کی بیعت و اطاعت سے گریز و انحراف کو کفر و ضلال سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اسے جاہلیت کی موت اس لیے فرمایا کہ اسلام سے قبل ایک امیر کی اطاعت کا کوئی تصور نہیں تھا بلکہ اس میں وہ اپنی عار اور ذلت محسوس کرتے تھے۔ اسلام نے اس طوائف الملوکی کا خاتمہ کر کے انہیں نظم و ضبط کا پابند بنایا اور اطاعت کی تاکید کی۔ (1/611) ایک اور حدیث کے فوائد (1) مطلب یہ ہے کہ حاکم اور رعایا دونوں کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں جو بھی اس میں کوتاہی کرے گا، اس کا بوجھ اس پر ہو گا اور اس کا خمیازہ اسے قیامت کے روز بھگتنا ہو گا، لیکن اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ اگر حاکم اپنی ذمے داریوں کا ادائیگی میں کوتاہی کریں تو رعایا بھی سمع و طاعت سے انکار کر دے۔ اس لیے کہ کوتاہی کا علاج کوتاہی سے ممکن نہیں، اس طرح مزید فساد ہو گا۔ (2) بنا بریں ملک کے مفاد عامہ کے لیے حکمرانوں کے ظلم کو برداشت کرنا، ان کے خلاف خروج و بغاوت کرنے سے زیادہ بہتر ہے تاہم قانون جس حد تک تنقید کرنے اور اصلاح کی آواز بلند کرنے کی اجازت دے، اس حد تک ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا، خروج و بغاوت سے مختلف چیز ہے اور اس کا اہتمام کرنا اپنی اپنی طاقت کے مطابق ضروری ہے۔ (1/615) ایک اور حدیث کے فوائد ملاحظہ ہوں (1) بادشاہ کی بے توقیری اور اہانت سے مراد، ان کی حکم عدولی اور عدم اطاعت ہے۔ اس سے حکمرانوں کا وقار اور ان کی تمکنت و جلال متاثر ہوتا ہے جب کے امن و استحکام کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کا رعب اور دبدبہ قائم رہے تاکہ جرائم پیشہ اور قانون شکن عناصر کو اپنی مذموم کاروائیوں کی جسارت نہ ہو۔ بہرحال ملکی مفاد اور مصلحت عامہ کی وجہ سے مسلمانوں کو یہی تاکید کی گئی ہے کہ جب تک حکمرانوں سے کفر صریح کا ارتکاب نہ ہو اور جب تک وہ نماز اور دیگر شعائر دین کو قائم رکھیں، اس وقت تک ان کی اطاعت کرو، چاہے وہ عدل و نصاف کے قیام اور عوام کے دیگر حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والے ہی ہوں۔ (2) اسلام کی یہ ہدایت موجودہ مغربی جمہوریت سے یکسر مختلف ہے جس میں حزب اختلاف کا وجود نہایت