کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 257
اٹھا دیا ہے جیسا کہ اس نے اپنے بندوں کو حکم دیتے ہوئے اپنے اس قول کی طرف راہنمائی کی ہے: ’’اے ہماے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر لیں تو ہمارا مواخذہ نہ کر۔‘‘ اس کے بعد امام ابن کثیر صحیح مسلم کی وہ حدیث جس میں اللہ نے فرمایا: نعم قد فعلت ذکر کی جو پیچھے بیان ہو چکی ہے اور صحیح البخاری کی عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے حدیث بیان کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إذا اجتہد الحاکم فأصاب، فلہ أجران، و إن اجتہد فأخطأ، فلہ أجر۔))[1] ’’جب حاکم اجتہاد کرے اور درست کرے تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور اگر اجتہاد کیا، خطا کر دی تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔‘‘ پھر اس کے بعد امام ابن کثیرنے ((إن اللّٰہ وضع عن أمتي الخطأ و النسیان و ما استکرہوا علیہ۔)) درج کی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’و اما التکفیر فالصواب أنہ من اجتہد من أمۃ محمد و قصد الحق فاخطأ لم یکفر بل یغفر لہ خطأہ و من تبین لہ ما جاء بہ الرسول فشاق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدی و اتبع غیر سبیل المؤمنین فہو کافر و من اتبع ہواہ و قصر فی طلب الحق و تکلم بلا علم فہو عاص مذنب ثم قد یکون فاسقا و قد تکون لہ حسنات ترجح علی سیئاتہ۔‘‘[2] ’’رہا مسئلہ تکفیر: تو درست بات یہ ہے کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے جس شخص نے بھی اجتہاد کیا اور حق کا مقصد و ارادہ کیا سو اس نے خطا کر لی اس کی تکفیر نہیں ہو گی بلکہ اس کی خطا معاف کر دی جائے گی اور جس شخص کے لیے وہ چیز کھل کر واضح ہو گئی جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اور اس نے اپنے لیے ہدایت کھل کر واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کی اور مومنین کے راہ کے علاوہ پیروی کی تو وہ کافر ہے اور جس نے اپنی خواہش کی پیروی کی اور حق کی تلاش میں کوتاہی کی اور علم کے بغیر کلام کیا تو وہ نافرمان و گناہ گار ہے پھر کبھی وہ فاسق ہوتا ہے اور کبھی اس کی
[1] ) تفسیر ابن کثیر: 5/145۔ نیز دیکھیں: صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ، باب اجر الحاکم اذا اجتہد: 7352۔ و صحیح مسلم، کتاب الاقضیۃ: 1716۔ [2] ) مجموع الفتاوی لإبن تیمیۃ: 12/180۔