کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 254
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس کو اس آیت نے منسوخ کر دیا: (آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ) سے لے کر (لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ )(البقرۃ:285-286) تک نفس کی باتیں ان کے لیے معاف کر دی گئیں اور اعمال کے ساتھ پکڑے گئے۔[1] مذکورہ بالا احادیث میں لوگوں کا اللہ سے خطا و نسیان کی معافی مانگنا اور اللہ کا فرمانا: ’’نعم قد فعلت‘‘ اس بات کی بین اور واضح دلیل ہے کہ خطا نسیان اللہ کے ہاں معاف اور ناقابل مواخذہ ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر بہت زیادہ خوش ہوتا ہے جس وقت تم میں سے کئوی اس کی طرف توبہ کرتا ہے جب بندہ ایک جنگل میں اپنی سواری پر ہو پھر اس کی سواری اس سے ایک دم چھوٹ جائے اور اس پر اس کا کھانا اور پینا بھی ہو پھر وہ اس سے مایوس ہو جائے اور ایک درت کے سائے کے نیچے لیٹ جائے اور اپنی سواری سے مایوس ہو جائے پھر وہ اسی حالت میں ہو کہ اچانک اس کی سواری اس کے پاس کھڑی ہو وہ اس کی لگام پکڑ لے پھر شدت فرحت سے کہے: ’’اللّٰہمَّ أنت عبدی و أنا ربک أخطا من شدۃ الفرح۔‘‘ ’’اے اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں اس نے شدید خوشی میں خطا کر دی۔‘‘[2] اس حدیث سے بھی واضح ہوا کہ شدت فرحت کے باعث خطاً زبان سے نکلے ہوئے کلمات پر بھی مواخذہ نہیں ہوتا۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فیہ أن ما قالہ الإنسان من مثل ہذا في حال دہشتہ و ذہولہ لا یؤاخذ بہ۔‘‘[3] اس حدیث سے یہ فائدہ معلوم ہوتا ہے کہ اس جیسی کوئی بات انسان دہشت اور ذہول (حواس باختہ ہو کر، اوسان خطا ہو کر) کہہ دیتا ہے تو اس پر اس کا مواخذہ نہ ہو گا۔‘‘ شیخ سلیم بن عید الہلالی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
[1] ) مسند أحمد: 5/194-195، رقم: 3070۔ تفسیر عبدالرزاق: 1/113-114۔ المعجم الکبیر للطبراني: 10729۔ شعب الإیمان للبیہقي: 329۔ [2] ) صحیح مسلم، کتاب التوبۃ: 7/2747۔ صحیح البخاري، کتاب الدعوات: 6309۔ مسند أحمد: 20/443، رقم:13227۔ شعب الإیمان للبیہقي: 7105۔ شرح السنۃ للبغوی: 1303۔ [3] ) فتح الباري : 14/297، ط: دار طیبۃ، إکمال المعلم بفوائد مسلم: 8/245، ط: دار الوفائ۔