کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 250
’’یہ اس قاعدے کی اصل ہے کہ بھولنے والا اور خطاء کرنے والا دونوں ہی مکلف نہیں ہیں اور ان دونوں کی فروعات میں سے یہ ہے کہ بھولنے والا جاہل و ناواقف کی قسم نہیں ٹوٹتی اور ان کے دیگر احکامات۔‘‘ امام طبری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وہو تعلیم من اللّٰہ عبادہ المؤمنین دعائہ کیف یدعونہ، وما یقولون في دعائہم إیاہ۔ ومعناہ: قولوا:( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا) شیئا فرضت علینا عملہ فلم نعملہ ، (أَوْ أَخْطَأْنَا )في فعل شيء نہیتنا عن فعلہ ففعلناہ، علی غیر قصد منا إلی معصیتک، ولکن علی جہالۃ منا بہ وخطأ۔‘‘ [1] ’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے مومن بندوں کو دعا کی تعلیم ہے کہ وہ اس کو کیسے پکاریں اور اپنی دعائوں میں کیا کہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم کہو: اے ہمارے رب تو ہمارا مواخذہ نہ کر اگر ہم کسی ایسی چیز میں بھول جائیں جس پر عمل کرنا تو نے ہم پر فرض کیا اور ہم نے اس پر عمل نہ کیا ہو۔ کسی ایسے عمل میں خطاء کر جائیں جس کے ارتکاب سے تو نے ہمیں منع کیا تو ہم نے تیری نافرمانی کا ارادہ کیے بغیر وہ کام کر ڈالا لیکن یہ ہم سے جہالت اور خطا کی وجہ سے سرزد ہو گیا۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی: لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ (البقرۃ: 284) ’’اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور اگر تم اسے ظاہر کرو جو تمھار ے دلوں میں ہے، یا اسے چھپائو اللہ تم سے اس کا حساب لے گا، پھر جسے چاہے گابخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا ۔‘‘ تو یہ آیت رسول اللہ رضی اللہ عنہم کے صحابہ پر گراں گزری تو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے پھر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئے تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں ایسے اعمال کی تکلیف دی گئی ہے جس کی ہمیں طاقت نہیں ہے نماز، روزے، جہاد اور صدقہ اور آپ پر یہ آیت نازل ہو چکی ہے اور ہمیں ان اعمال کی طاقت
[1] ) تفسیر طبری: 3/72۔ بتحقیق اسلام منصور عبدالحمید ط دارالحدیث القاہرہ۔