کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 245
مذہبی کی بناء پر صحیح احادیث رسول پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں علماء اتنی سکت اور ہمت نہیں رکھتی اور انہیں حق و ناحق، جائز و ناجائز کی بالادلۃ تفریق کرنے کی استعداد اور پرکھنے کا ملکہ نہیں ہوتا۔ اب دوسری قسم جس کے نزدیک حق واضح نہیں ہے اس کی بھی دو قسمیں ہیں: اول:… ایسا مقلد جو ہدایت کا طالب اور متلاشی ہو لیکن وہ کسی وجہ کی بناء پر اس پر قدرت نہیں رکھتا تو اس پر دعوت اور تعلیمات کے نہ پہنچنے کا حکم لگایا جائے گا۔ دوم:… ایسا مقلد جس نے کبھی یہ سوچا نہیں کہ اس سے بہتر صائب راستہ اگر میرے سامنے آ جائے تو میں اس کو اختیار کر لوں بلکہ جس راستے پر ہے اس سے نہیں ہٹنا چاہیے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ان مقلدین میں دو طرح کے لوگ ہو سکتے ہیں ایک وہ جو حق کو جانتے ہوئے بھی لیڈرانِ قوم کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ان کا معاملہ بالکل صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے پاس ان کا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا دوسرے وہ لوگ ہیں جن کو حق کے بارے کوئی واقفیت نہیں ہے ان میں بھی دو قسم کے ہو سکتے ہیں: ایک وہ جو راہِ راست سے محبت رکھتے ہیں لیکن خود حق کو پانے کی ان کے اندر سکت اور استعداد ہے اور نہ راہ دکھانے والوں تک وہ پہنچ سکتے ہیں ممکن ہے ان کا معاملہ زمانہ فطرت کے لوگوں جیسا ہو، اور دوسری قسم میں ایسے لوگ ہیں جن کا نہ کوئی ارادہ اور چاہت ہے اور نہ کچھ حق و ناحق کی بات ان کے دل میں آتی ہے جس حالت میں ہیں مطمئن اور راضی پڑے ہیں اسی طرح تفصیلی طور پر مسئلہ کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور اتنی بات مسلم ہے کہ قیامت کے دن اللہ عدل کرے گا اور کسی بھی معذور کو مجرم نہ ٹھہرایا جائے گا اور جس پر حجت تمام نہیں ہوتی اس کو عذاب میں نہ ڈالا جائے گا اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی مسلم ہے اور اس کا اعتقاد رکھنا چاہیے کہ دین اسلام کے علاوہ کوئی دین اور عقیدہ خدا کے نزدیک معتبر اور قابل قبول نہ ہوگا البتہ متعین طور پر کسی فرد یا قوم کے بارے میں فیصلہ کرنے کا معاملہ اللہ کے حوالہ ہے کہ آخرت میں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ ہاں دین کا معاملہ الگ ہے یہاں ظاہری حالات کے تحت فیصلہ کیا جائے گا اور احکام جاری کیے جائیں گے۔‘‘ [1]
[1] ) راہ سعادت کتاب ’’طریق الہجرتین وباب السعادتین‘‘ کا ترجمہ، ص: 336۔ ط الریاض۔