کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 240
اسے افاقہ ہو جائے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن حبان نے صحیح کہا ہے اور امام حاکم نے مسلم کی شرط پر صحیح کہا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ قلم اٹھانے کا مطلب ان کے اعمال لکھے نہیں جاتے، مجنون اور دیوانگی والا جب تک اس کو افاقہ نہیں ہوتا اور اس کی عقل کام نہیں کرتی وہ معذور ہے اسی طرح جس شخص کے پاس علم کی دولت نہیں اسے امام ابن تیمیہ مجنون کی طرح قرار دے رہے ہیں۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس قول سے علم ہوا کہ کسی کی تکفیر کرتے ہوئے دو بنیادی امور کو مدنظر رکھنا لازم ہے وہ یہ کہ: اول:… علم کی موجودگی دوم:… اس پر عمل کی قدرت ورنہ حکم تکفیر صحیح نہ ہوگا پس اس کے واضح ہونے کے بعد میں عرض کروں گا کہ: وہ شخص جس نے ایمان کے بعض واجبات کو ان دونوں وجوہات میں سے کسی ایک کی بنیاد پر چھوڑا تو وہ اس کا مکلف نہ ہوگا اور اس پر اس ضمن میں حکم عائد نہ کیا جائے گا۔ اس قاعدہ کی اصل قرآن مجید کی آیت ہے: (لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا) (البقرۃ: 286) ’’اللہ تعالیٰ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق۔‘‘ علامہ جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’استدل بہ علی منع التکلیف مالا یطاق۔‘‘ [1] ’’اس آیت کریمہ سے استدلال کیا گیا ہے کہ ایسی تکلیف جو بندے کی طاقت سے باہر ہو منع ہے۔‘‘ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لا یکلف احدا فوق طاقتہ۔‘‘ [2] ’’کسی کو وہ اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔‘‘ خلاصۃ القول حکم لگانے سے قبل اس شخص پر اتمام حجت کے لیے مکمل جائزہ ضروری ہے کہ آیا جس ضمن میں حکم لگایا جا رہا ہے اس کے بارے میں اس کو مکمل اور صحیح معلومات بھی ہیں یا نہیں۔ اگر علم کی موجودگی کے باوجود وہ عمل پر قدرت نہیں رکھتا تو اس کا مواخذہ نہ ہوگا کیونکہ وہ اس پر مکلف ہی نہیں تھا۔
[1] ) الا کلیل فی استنباط التنزیل، ص: 165۔ ناشر مکتبہ فیاض۔ [2] ) ابن کثیر: 1/673۔