کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 24
کر ہر شعبہ زندگی اور زندگی کے ہر موڑ پر اسلامی تعلیمات کا مظاہرہ کریں اور جو لوگ (عوام ہوں یا خواص) ان سے ایمانی قوت میں بھی کمزور ہوں اور عمل میں بھی پھسڈی، ان کو حقیر اور اپنے سے کمتر نہ سمجھیں بلکہ اپنی اپنی طاقت اور دائرے کے مطابق ان کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں کیونکہ اس سے زیادہ کا تو اللہ نے پیغمبروں کو بھی مکلف نہیں بنایا ہے چہ جائے کہ ایک عام مسلمان تمام لوگوں کی اصلاح و ہدایت کا اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرا لے یا اپنے زعم تقویٰ و پارسائی میں دوسرے مسلمانوں کو جہنم کا ایندھن باور کرائے۔ فتویٰ بازی سے یہ گریز انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں ناگزیر ہے۔ انفرادی سے مراد عوام ہیں اور اجتماعی سے مراد حکمران طبقہ ہے۔ موجود صورت حاصل نہایت افسوس ناک ہے عملی لحاظ سے عوام بھی اسلامی تعلیمات کا شعور نہیں رکھتے اور جو رکھتے ہیں عمل کے اعتبار سے وہ بھی بے شعوروں ہی کی طرح ہیں کیونکہ عمل سے ان کا دامن بھی خالی ہے۔ الا ما شاء اللہ۔ سوائے تھوڑے سے مسلمانوں کے یہی حال خواص، یعنی حکمران طبقے کا ہے۔ ان کو اللہ نے اختیار و اقتدار سے نوازا ہے لیکن وہ اللہ کے حکم کے مطابق اللہ کے عطا کردہ نظام زندگی کو نافذ نہیں کرتے بلکہ انہوں نے غیروں کے نظام کو اپنایا ہوا ہے۔ ہمارے بعض نوجوان قرآنی آیات: (وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ)و (فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ) و( الظَّالِمُونَ) ( المائدۃ: 44، 45، 47) کے پیش نظر مسلمان مملکتوں کے بیشتر حکمرانوں کو ان کا مصداق قرار دے کر ان کو کافر قرار دے دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کا وہ نقطہ نظر ہو جاتا ہے جس کی وضاحت استفساری مراسلے میں کی گئی ہے۔ لیکن ان حضرات کے اس موقف کو اگر درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ مسلمان عوام کو پھر کس زمرے میں رکھا جائے گا؟ ان کی اکثریت بھی تو اپنی انفرادی زندگی میں ما انزل اللہ کو نہ مان رہی ہے اور نہ ماننے کے لیے تیار ہی ہے؟ اگر ان کو بھی مذکورہ آیات کا مصداق قرار دے کر ان پر بھی فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونکا حکم لگا دیا جائے تو پھر مسلمان معاشرے میں جو انتشار پیدا ہو گا، وہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔ اسی لیے شریعت اسلامیہ نے اس امر کی بڑی تاکید کی ہے کہ اگر حکمران طبقہ اللہ کے احکام کے برعکس تمہارے ساتھ ظلم و ستم کا معاملہ کرے تو اس کو برداشت کرنا ہے، اس کے خلاف خروج و بغاوت نہیں کرنا۔ ہاں اگروہ کفر بواح (بالکل ظاہر کفر) کا ارتکاب کریں تو بات اور ہے لیکن کفر بواح، عملی کوتاہیوں، کوتاہ دستیوں کا نام نہیں، ضروریات دین کے انکار کا نام ہے، جیسے کوئی کہے (وہ عوام میں سے ہو یا خواص میں سے) میں ختم نبوت کو نہیں مانتا، قرآن کو نہیں مانتا، نماز، روزہ ڈھکوسلہ ہیں وغیرہ وغیرہ، تو ایسا شخص یقینا کافر اور دائرہ اسلام