کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 221
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وأما الرؤیۃ فالذی ثبت فی الصحیح عن ابن عباس انہ قال رای محمد ربہ بفؤادہ مرتین وعائشۃ أنکرت الرؤیۃ فمن الناس من جمع بینہما فقال عائشۃ انکرت رؤیۃ العین وابن عباس اثبت رؤیۃ الفؤاد۔‘‘[1] ’’بہر کیف رؤیت باری تعالیٰ صحیح میں جو بات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے وہ یہ ہے، انہوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دوبارہ دل سے دیکھا ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہ نے رؤیت کا انکارکیا ہے۔ بعض لوگوں نے ان کے درمیان تطبیق دی ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ نے رؤیت عینی کا انکارکیا ہے اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے رؤیت قلبی کا اثبات کیا ہے۔‘‘ اس مسئلہ میں مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔[2] رؤیت باری تعالیٰ کا مسئلہ اعتقاد سے تعلق رکھتا ہے اور اس میں ہمارے اکابرین اسلاف کا اختلاف ہے جیسا کہ مذکورہ بالا مختصر سی بحث سے واضح ہے لیکن اس میں انہوں نے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی۔ صرف یہی نہیں بلکہ نماز، روزہ، حج اور تحریم فواحش وغیرہ کا منکر یا اس کے وجوب کا منکر کا ٹھہرتا ہے باوجود اس کے کہ یہ عملی مسائل ہیں اور پچھلامسئلہ اصولی مسئلہ تھا لیکن اس میں اختلاف کے باوجود تکفیر نہیں کرتے۔[3] شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أن المقالۃ تکون کفرا کجحد وجوب الصلاۃ والزکاۃ والصیام والحج وتحلیل الزنا والخمر والمیسر ونکاح ذوات المحارم ثم القائل بہا قد یکون بحیث لم یبلغہ الخطاب وکذا لا یکفر بہ جاحدہ کمن ہو حدیث عہد بالإسلام أو نشأ ببادیۃ بعیدۃ لم تبلغہ شرائع الإسلام فہذالا یحکم بکفرہ بجحد شیء مما أنزل علی الرسول إذا لم یعلم أنہ أنزل علی الرسول۔‘‘ ’’بلاشہ قول کبھی کفریہ ہوتا ہے جیسے نماز، زکاۃ، روزہ اور حج کے وجوب کا انکار، زنا، شراب، جوا
[1] ) مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: 6/509۔ [2] ) فتاوی ابن تیمیہ مذکورہ بالا مقام اورمجموعۃ الفتاوی: 3/229،242۔ فتح الباری: 10/639،642۔ شرح صحیح مسلم للنووی: الکشف والبیان للثعلبی: 9/140،142۔ وغیرہم۔ [3] ) # مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں۔ مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: 3/229 تا 231۔