کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 219
اور اگر یہ بات درست ہوتی تو صحابہ کرام میں اصولی مسائل میں بھی اختلاف موجود تھے جیسے سیدہ عائشہ اور صحابہ کرام کا اختلاف کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا یا نہیں۔ ابن عباس اور دوسرے صحابہ، کعب احبار اور دیگر وغیرہ اس بات کے قائل تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رب العالمین کو دیکھا ہے۔جبکہ عائشہ، ابن مسعود اور ابوہریرۃ اس کی نفی کرتے ہیں۔ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قال: أتعجبون أن تکون الخلۃ لإبراہیم والکلام لموسی والرؤیۃ لمحمد صلی اللّٰه علیہ وسلم ۔‘‘[1] ’’کہ تم لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ سیدنا ابراہیم کے لیے خلت اور موسیٰ علیہ السلام کے لیے کلام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دیدار الٰہی ہے۔‘‘ دوسری روایت میں ہے:’’عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قال رأی محمد ربہ۔‘‘[2] ’’عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے۔‘‘ یہ روایات تو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مطلق رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں وارد ہوئی ہیں جبکہ ایک دوسری صحیح روایت میں یہ رؤیت قلبی سے مقید ہے اورمطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے۔ ’’عن عطاء عن ابن عباس قال رآہ بقلبہ۔‘‘[3] ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دل سے دیکھا ہے۔‘‘ ’’عن أبی العالیۃ عن ابن عباس: قال: (مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى (11) أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى ) (النجم: 11۔12) رآہ بفؤادہ مرتین۔‘‘[4]
[1] ) کتاب السنۃ لعبد اللّٰہ بن احمد بن حنبل الشیبانی: (1021,1020,1019,563)۔ کتاب التوحید لابن مسندہ: (657)۔ الرد علی من قال القرآن مخلوق: (59)۔ [2] ) کتاب السنۃ: 1022، 1023۔ ترمذی: 3280۔ السنۃ لابن ابی عاصم: 444،435۔ شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجمائۃ: 817۔ الکامل لابن عدی: 2/677۔ الاسماء والصفات للبیہقی ص: 444،445۔ کتاب التوحید لابن خزیمۃ: (272) ،(278)۔ السنن الکبری للنسائی: 11539۔ کتاب الایمان لابن مسند: 762،760۔ المستدرک للحاکم: 1/65۔ ابن حبان: 57۔ الطبری: 10727۔ [3] ) صحیح مسلم کتاب الایمان: 284/176۔ [4] ) مزید ملاحظہ کریں: تفسیر ابن کثیر: 6/23،24۔ بتحقیق عبدالرزاق المہدی۔