کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 212
’’بل ہو مبعوث إلی الثقلین الجن والإنس، وہم علی ألسنۃ مختلفۃ ولغات شتی وقولہ بلسان قومہ ولیس قومہ سوی العرب یقتضی بظاہرہ أنہ مبعوث إلی العرب خاصۃ فکیف یمکن الجمع؟ قلت: بعث رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم من العرب وبلسانہم والناس تبع للعرب فکان مبعوثًا إلی جمیع الخلق، لأنہمتبع للعرب ثم إنہ یبعث الرسل إلی الرسل إلی الأطراف، فیترجمون لہم بألسنتہم ویدعونہم إلی اللّٰہ تعالی بلغاتہم۔‘‘[1] ’’اگر تو یہ کہے: اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اکیلے عربوں کی طرف نہیں بھیجا آپ تو تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیے گئے ہیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق: ’’کہہ دو اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جن و انس کی طرف مبعوث کیے گئے اور ان کی زبانیں اور بولیاں مختلف ہیں اور اللہ کا فرمان: ’’اس قوم کی زبان میں۔‘‘ اور آپ کی قوم عرب کے سوا نہ تھی اس کے ظاہر کا تقاضا تو یہ ہے کہ آپ خاص عربوں کی طرف مبعوث کیے گئے تو ان میں جمع و تطبیق کیسے ممکن ہے؟ میں کہتا ہوں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں سے ان کی زبان میں مبعوث کیے گئے اورباقی تمام لوگ عربوں کے تابع ہیں تو آپ تمام مخلوق کی طرف مبعوث ہوئے اس لیے کہ باقی سب عربوں کی تابع ہیں پھر آپ قاصد مختلف اطراف عالم میں بھیجتے تھے وہ ان کی زبانوں میں ان کے لیے ترجمہ کرتے تھے اور انہیں ان کی زبان میں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے تھے۔‘‘ پھر ایک قول پر لکھتے ہیں: ’’إن الرسول إذا أرسل بلسان قومہ وکانت دعوتہ خاصۃ وکان کتابہ بلسان قومہ کان أقرب لفہمہم عنہ وقیام الحجۃ علیہم فی ذلک۔‘‘[2] ’’بلاشبہ رسول جب اپنی قوم کی زبان میں بھیجا جاتا اور اس کی دعوت خاص ہوتی اور اس کی کتاب اس کی قوم کی زبان میں ہوتی تو ان کا اس رسول سے بات سمجھنا اور اس میں ان پر حجت قائم کرنا زیادہ قریب تھا۔‘‘ تقریباً یہی بات قاضی شوکانی نے فتح القدیر میں درج کی ہے۔[3]
[1] ) لباب التاویل فی معانی التنزیل المعروف بتفسیر الخازن: 3/28۔ ط دارالکتب العلمیہ بیروت۔ [2] ) ایضًا۔ [3] ) فتح القدیر: 3/94۔ ط دار احیاء التراث العربی بیروت۔