کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 210
’’المعنی: وما أرسلنا رسولا إلا بلغۃ قومہ لیفہموا عنہ۔‘‘ ’’اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے کوئی بھی رسول نہیں بھیجا مگر اس قوم کی زبان میں تاکہ وہ اس سے بات کو سمجھ لیں۔‘‘ پھر آگے لکھتے ہیں: ’’وما أرسلنا إلی أمۃ من الأمم من قبل محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم من رسول إلا بلسان الأمۃ التي أرسل إلیہا الیبین لہم ما أرسلہ اللّٰہ بہ إلیہم من أمرہ ونہیہ لتقوم الحجۃ علیہم ولا یبقی لہم عذر۔‘‘ [1] ’’اور ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی بھی امت کی طرف کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی امت کی زبان میں جس کی طرف رسول بھیجا گیا تاکہ اللہ نے جو اسے اوامر و نواہی دے کر بھیجا ہے وہ انہیں ان کے لیے کھول کھول کر بیان کر دے تاکہ ان پر حجت قائم ہو جائے اور کوئی عذر ان کے لیے باقی نہ رہے۔‘‘ علامہ ابو البرکات عبداللہ بن النسفی لکھتے ہیں: ’’ (لِيُبَيِّنَ لَهُمْ) ما ہو مبعوث بہ ولہ فلا یکون لہم حجۃ علی اللّٰہ ولا یقولون لہ: لم نفہم ما خوطبنا بہ فإن قلت: إن رسولنا صلی اللّٰه علیہ وسلم بعث إلی ا لناس جمیعاً بقولہ: (قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا )(الأعراف: 158) بل إلی الثقلین وہم علی ألسنۃ مختلفۃ فإن لم تکن للعرب حجۃ فلغیرہم الحجۃ۔ قلت: لا یخلو إما أن ینزل بجمیع الألسنۃ أو بواحد منہا فلا حاجۃ إلی نزولہ بجمیع الألسنۃ، لأن الترجمۃ تنوب عن ذلک وتکفي التطویل فتعین أن ینزل بلسان واحد، وکان لسان قومہ أولی بالتعیین لأنہم أقرب إلیہ۔‘‘ [2] ’’تاکہ وہ رسول ان کے لیے وہ چیز کھول کر بیان کر دے جس کے ساتھ اور جس کے لیے وہ بھیجا گیا تاکہ ان کے لیے اللہ پرحجت باقی نہ رہے اور اسے کہہ نہ سکیں: جس چیز کے ساتھ ہمیں خطاب کیا گیاہم نے اسے سمجھا نہ تھا۔ اگر تم کہو کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے اللہ کے فرمان کے مطابق: ’’کہہ دیجیے اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا
[1] ) الہدایۃ الی بلوغ النہایۃ: 5/3771-3772۔ [2] ) مدارک التنزیل وحقائق التاویل المعروف بتفسیر النسفی: 2/162۔ ط مکتبہ رحمانیہ لاہور۔