کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 206
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فہذہ عائشۃ أم المؤمنین سألت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ہل یعلم اللّٰہ کل ما یکتم الناس؟ فقال لہا النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم : ’’نعم‘‘ وہذا یدل علی أنہا لم تکن تعلم ذلک ولم تکن قبل معرفتہا بأن اللّٰہ عالم بکل شیء یکتمہ الناس کافرۃ۔‘‘ [1] ’’یہ عائشہ اُم المؤمنین رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا جو کچھ بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ہاں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ یہ بات نہیں جانتی تھیں اور اس بات کی معرفت سے قبل کہ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں، وہ کافرہ نہ تھیں۔‘‘ مذکورہ بالا ادلۃ قویۃ اور ائمہ دین سلف صالحین کے ارشادات عالیہ سے واضح ہو گیا کہ حجت قائم کرنے سے قبل کسی کو کافر قرار دینا جائز نہیں۔ اگر شرعی علوم سے ناواقف اور جاہل سے تو پہلے اس کی جہالت کا ازالہ کی اجائے گا اور اس کے شکوک و شبہات کو رفع کیا جائے گا پھر بھی اگر وہ باطل پر مصر اور کفر پر قائم رہتا ہے اور عناد و سرکشی کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو رد کرتا ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ قیام حجت کے ساتھ ایک اور اہم بات فہم الحجۃ بھی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے فرامین اگر کسی شخص تک پہنچ جائیں تو قیام حجت کے لیے یہ کافی ہے لیکن یاد رہے کہ دلائل کے معانی سمجھنا اور جاننا لازمی ہیں کسی عجمی پر جو عربی لغت سے نابلد ہے محض آیات قرآنیہ کی تلاوت اور احادیث نبویہ کی قرآت کافی نہیں ہوگی کیونکہ وہ ان کے معانی سے ناوقف ہے اسے اس کی زبان میں وضاحت کر کے سمجھانا ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (ابراہیم: 4) ’’اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ ان کے لیے کھول کر بیان کر دے۔‘‘ امام ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’ہذا من لطفہ تعالی بخلقہ أنہ یرسل إلیہم رسلا منہم بلغاتہم لیفہموا
[1] ) مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: 11/412-413۔