کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 199
جو ان کے مسلک پر چلا۔‘‘ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وقد یسئل عن ہذا، فیقال: کیف یغفر لہ وہو منکر للبعث والقدرۃ علی إحیاء ہ وإنشارہ؟ إنہ لیس بمنکر للبعث إنما ہو رجل جاہل ظن أنہ إذا فعل بہ ہذا الصنیع ترک فلم ینشر ولم یعذب الا تراہ یقول: فجمعہ فقال: لم فعلت ذلک، فقال: من خشیتک فقد تبین أنہ رجل مؤمن باللّٰہ فعل ما فعل من خشیۃ اللّٰہ اذا بعثہ الا أنہ جھل۔‘‘[1] ’’بسا اوقات اس حدیث کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے اس کو کیسے معاف کر دیا گیا حالانکہ وہ مرنے کے بعد جی اٹھنے اور زندہ کرنے کی قدرت کا منکر تھا، توکہا جائے گا کہ: وہ مرنے کے بعد اٹھنے کاہرگز منکر نہ تھا وہ ایک جاہل آدمی تھا اس نے یہ سمجھ لیا اگر اس کو جلا کر راکھ کر دیا گیا اور راکھ دریا اور ہوا میں بکھیر دی گئی تو اس کو اٹھایا نہیں جائے گا اور نہ ہی عذاب دیا جائے گا، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ نے اس کی راکھ جمع کر کے اس سے پوچھا: تم نے یہ کام کیوں کیا؟ تو اس نے کہا: تیرے ڈر کی وجہ سے، تو یہ بات کھل کر واضح ہو گئی کہ وہ آدمی اللہ پر ایمان لانے والا تھا اس نے جو بھی کیا وہ اللہ کی خشیت اور ڈر کی وجہ سے کیا مگر وہ جاہل تھا۔‘‘ امام ابن قتیبہ فرماتے ہیں: ’’قد یغلط فی بعض الصفات قوم من المسلمین فلا یکفرون بذلک۔‘‘[2] ’’بسا اوقات مسلمانوں میں سے کچھ لوگ بعض صفات باری تعالیٰ میں غلطی کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو اس کے ساتھ ان کو کافر قرار نہیں دیا جاتا۔‘‘ شیخ محمد بن عبدالوہاب لکھتے ہیں: ’’وإذا کنا لا نکفر من عبدالصنم الذی علی عبدالقادر والصنم الذی علی قبر أحمد البدوی وأمثالہما لأجل جھلھم وعدم من ینبہہم فکیف نکفر من لم یشرک باللّٰہ؟ إذا لم یہاجر إلینا أو لم یکفر ویقاتل (سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ
[1] ) الاعلام السنن فی شرح صحیح البخاری للخطابی: 2/207۔ ط دارالکتب العلمیۃ، فتح الباری: 6/522۔ ط سلفیۃ وفی نسخۃ: 8/138۔ ط دار طیبۃ۔ [2] ) فتح الباری: 8/138۔ ط دار طیبۃ تحت حدیث رقم: 3479۔