کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 197
’’حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ وہ آدمی کفن چور تھا اس کو رحمت الٰہی نے اس کی جہالت اور اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان کی وجہ سے پا لیا اسی لیے تو وہ عذاب سے خائف ہوا بہر حال اس کا اللہ کی قدرت سے جاہل ہونا جیسا کہ اس نے اس کو محال سمجھا، کفر نہیں ہے۔ الا کہ اگر وہ جان لے کہ انبیائ علیہم السلام یہ حکم لے کر آئے اور یہ ممکن اور تحت القدرۃ ہے پھر ان انبیائ علیہم السلام کو جھٹلانے یا ان میں سے کسی ایک اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے ’’اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ہم کوئی رسول بھیج دیں۔‘‘ یہ تاویل میں خطا کرنے والوں کے لیے سب سے زیادہ امید دلانے والی حدیث ہے۔‘‘ بلکہ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے بسند متصل صحیح روایت میں یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لم یعمل خیراً قط إلا التوحید۔‘‘[1] ’’اس نے توحید کے علاوہ کبھی کوئی نیکی کی ہی نہیں۔‘‘ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت میں ہے جو حکماًمرفوع ہے: ’’ان رجلا لم یعمل من الخیر شیئًا قط إلا التوحید۔‘‘[2] ’’بلاشبہ ایک آدمی نے توحید کے علاوہ خیر کا کبھی کوئی کام نہیں کیا۔‘‘اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ اس شخص کے پلڑے میں عقیدہ توحید کے سوا کچھ نہ تھا اور خیر کے ہر طرح کے اعمال سے خالی تھا۔ پھر بھی اللہ نے اسے معاف کر دیا۔ امام ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وکذلک کل جاہل بشیء یمکن أن یجھلہ لا یحکم بکفرہ حتی یعرف ذلک وتزول عنہ الشبۃ ویستحلہ بعدذلک۔‘‘[3] ’’اسی طرح ہر وہ جاہل جس کا کسی چیز سے جاہل ہونا ممکن ہو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا یہاں تک کہ وہ اسے پہچان لے اور اس سے شبہ زائل ہو جائے اور اس کے بعد وہ اس کو حلال جانے تو پھر کافر ہو جائے گا۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ راقم ہیں:
[1] ) مسند احمد: 13/408 (8040)۔ [2] ) مسند احمد: 6/326 (3785)۔ وقال الہیثمی، وإسناد ابن مسعود حسن مجمع الزوائد: 10/194۔ [3] ) المغنی لابن قدامۃ: 12/277۔