کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 195
تعلیمہ ووجب تعلیمہ فإذا علم وصح عندہ الحق فإن عائد فہو کافر حلال دمہ ومالہ محکوم علیہ حکم المرتد وقد علمنا أن کثیراً ممن یتعاطی الفتیا فی دین اللّٰہ عزوجل نعم وکثیرًا من الصالحین لا یدری کم لموت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ولا أین کان ولا فی أی بلد کان ویکفیہ من کل ذلک إقرارہ بقلبہ ولسانہ أن رجلا اسمہ محمد أرسلہ اللّٰہ تعالی إلینا بہذا الدین۔‘‘[1] ’’اگر کوئی اعتراض کرنے والا کہے کہ اس آدمی کے بارے میں تم کیاکہتے ہو جو کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اورمیں یہ نہیں جانتا کہ وہ قریشی ہیں یا تمیمی یا فارسی، نہ میں جانتا ہوں کہ وہ حجازمیں ہوئے یا خراسان میں، نہ میں یہ جانتا ہوں کہ وہ زندہ ہیں یا فوت ہو گئے ہیں اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ شاید وہ یہی حاضر شخص ہیں یا کوئی اور۔ تو اسے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ شخص جاہل ہے جسے اخبار و سیر کا بالکل علم نہیں تو یہ اس کے لیے بالکل مجر نہیں ہے، اور اس کو بتانا واجب ہے جب اسے علم ہو جائے اور اس کے نزدیک حق ثابت ہو جائے پھر اگر وہ مخالفت کرے تو وہ کافر ہے اس کا خون اور مال حلال ہے اور اس پر مرتد کا حکم لگایا جائے گا، ہمیں ایسے بہت سے لوگوں کا علم ہے جن سے اللہ تعالیٰ کے دین میں فتویٰ لیا جاتا ہے بہت سے صالحین اور نیک لوگ ایسے ہیں جنہیں یہ معلوم نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئے کتنا زمانہ بیت گیا ہے اور نہ یہ معلوم ہے کہ آپ کی وفات کہاں اور کس شہر میں ہوئی ہے، ان سب عبارتوں میں ان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے دل اور زبان سے اس کا اقرار کریں کہ ایک شخص جن کا نام محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس دین کے ساتھ ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ اسی طرح مزید فرماتے ہیں: ’’وکذلک من قال أن ربہ جسم فإنہ إن کان جاہلاً أو متأولاً فہو معذور لا شیء علیہ ویجب تعلیمہ فإذا قامت الحجۃ علیہ من القرآن والسنن فخالف ما فیہما عنادًا فہو کافر یحکم علیہ بحکم المرتد۔‘‘[2] ’’اسی طرح جو شخص یہ کہے کہ اس کے رب اجسام میں سے ایک جسم والا ہے تو اگر وہ شخص جاہل یا
[1] ) الفصل لابن حزم: 2/269۔ [2] ) الفصل لابن حزم: 2/269۔