کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 193
’’اللہ تبارک وتعالیٰ کے ایسے اسماء و صفات ہیں جو اس کی کتاب میں وارد ہوئے ہیں، اوراس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کی خبر اپنی امت کو دی، جس شخص پر حجت قائم ہو گئی اس کے لیے ان کا رد کرنا جائز نہیں اس لیے کہ ان کے ساتھ قرآن نازل ہوا اور ان کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صحیح ثابت ہے۔ اگر حجت کے ثابت ہونے کے بعد مخالفت کرے تو انسان کافر ہے اور ثبوتِ حجت سے پہلے جہالت کی وجہ سے معذور ہے اس لیے کہ ان کا علم عقل کے ساتھ نہیں پایا جاتا، اور نہ غور و فکر کے ساتھ، اور ان سے جہالت کی وجہ سے ہم کسی کو بھی کافر نہیں کہتے سوائے اس کے کہ اس تک خبر پہنچ جائے۔‘‘ امام ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فالجاہل والمخطیٔ من ہذہ الأمۃ ولو عمل من الکفر والشرک ما یکون صاحبہ مشرکا أو کافرا فإنہ یعذر بالجھل والخطاء حتی یتبین لہ الحجۃ التی یکفر تارکہا بیانا واصحاما یلتبس علی مثلہا۔‘‘[1] ’’اس امت میں سے جاہل اور خطاکار اگرچہ کفر و شرک والا عمل کرے تومشرک و کافرنہ ہو گا وہ اتنی دیر تک جہالت اور خطا کی وجہ سے معذور ہے جب تک اس کے لیے وہ حجت خوب کھل کر واضح نہیں ہو جاتی جو اس کے تارک کو کافر قرار دیتی ہے، ایسی واضح جس کی مثل پر کوئی التباس و اختلاط نہ ہو۔‘‘ صحیح بخاری کی وہ حدیث جس میں ہے کہ ایک شخص نے مرنے سے قبل وصیت کی کہ جب میں مر جائوں تو مجھے جلا دینا اور میری راکھ آدھی دریا میں آدھی خشکی میں بکھیر دینا کیونکہ اگر اللہ نے مجھ پر قابو پا لیا تو ایسا سخت عذاب دے گا جو اس نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فہذا إنسان جہل إلی أن مات أن اللّٰہ عزوجل یقدر علی جمع رمادہ وإحیائہ وقد غفر لہ لإقرارہ وخوفہ وجھلہ۔‘‘[2] ’’یہ وہ انسان ہے جو اپنے مرنے تک اس بات سے جاہل اور ناواقف رہا کہ اللہ تعالیٰ اس کی راکھ جمع کرنے اور اس کو زندہ کرنے پر قادر ہے اور اللہ نے اس کے قرار، خوف اور جہالت کی
[1] ) تفسیرمحاسن التاویل المعروف بتفسیر القاسمی: 5/1307۔1308۔ [2] ) الفصل فی الملل والاہواء والنحل لابن حزم: 2/272۔