کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 190
ان جیسے اور واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ازالہ جہالت و شبہات اور موانع سے قبل حکم لگانا جائز نہیں اور اس ضمن میں جب صحابہ کرام جیسا افضل گروہ ایسی حالت میں گرفتار ہو سکتا ہے اور ایسے ماحول میں جہاں نور ہی نور، ہدایت ہی ہدایت ہو اس کے باوجود توموجودہ دور میں کوئی عام آدمی اس رعایت کا ان سے زیادہ مستحق ہے۔ اس سلسلہ میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی عملی شواہد ملتے ہیں کہ بعض معین افراد سے آپ کی موجودگی میں ایسے اعمال صادر ہوئے جو کفریہ تھے لیکن آپ نے ان کی تکفیر نہیں کی۔ اس میں ان لوگوں کو کسی تاویل یا جہل کی وجہ سے معذورگردانا گیا۔ جس کی ایک مثال معاذ رضی اللہ عنہ کی سجدہ کرنے والی اوپر گزر چکی ہے۔ دوسری یہ ہے کہ ربیع بنت معوذ بن عفراء کہتی ہیں: ’’جاء النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم یدخل حین بنی علی فجلس علی فراشی کمجلسک منی فجعلت جویریات لنا یضربنبالدف ویند بن من قتل من آبائی یوم بدر إذ قالت إحداہن وفینا نبی یعلم ما فی غد فقال دعی ہذہ وقولی بالذی کنت تقولین۔‘‘[1] ’’میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جب مجھے میرے شوہر کے ہاں پیش کیا گیا سو آپ میرے بستر پر بیٹھ گئے جس طرح تم میرے قریب بیٹھے ہو، اس وقت ہماری لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور بدر میں میرے آبائو اجدادجو قتل ہوئے ان پر اشعار کہہ رہی تھیں۔ اچانک ان میں سے ایک کہنے لگی: ہمارے اندر ایسے نبی موجودہیں جو آنے والے کل میں ہونے والے حالات جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: یہ کہنا چھوڑ دے اور وہی کہہ جوپہلے کہہ رہی تھی۔‘‘ طبرانی اوسط میں عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے آپ نے فرمایا: ’’لا یعلم ما فی غد إلا اللّٰہ۔‘‘[2] ’’کل آنے والے دن میں جو کچھ بھی ہے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس سند کو حسن قرار دیا ہے۔[3] اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وإنما أنکر علیہا ما ذکر من الاطراء حیث أطلق علم الغیب لہ وہو صفۃ
[1] ) صحیح البخاری کتاب النکاح (5147) اور کتاب المغازی (4001) میں ہے۔ ’’لا تقولی ہکذا وقولی ما کنت تقولین‘‘ مسند احمد: (27027) 44/574، (27021) 44/570۔ ابو داؤد: 4922۔ ترمذی: 1090۔ ابن حبان: 5878۔ بیہقی: 289/288،7۔ شرح السنۃ: (2265)۔ [2] ) (3425) 2/241۔ [3] ) فتح الباری: 11/475۔ ط دار طیبۃ۔ نیز دیکھیں: ابن ماجۃ: 1897۔