کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 188
اللّٰہ لأمرت المرأۃ أن تسجد لزوجہا))۔ والذی لزوجہا والذی نفس محمد بیدہ لا تؤدی المرأۃ حق ربہا حتی تؤدی حق زوجہا ولو سألہا نفسہا وہی علی قتب لم تمنعہ۔‘‘ ’’عبداللہ بن اوفی سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب معاذ رضی اللہ عنہ شام سے واپس آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا آپ نے فرمایا: اے معاذ! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں شام گیا تو میں نے دیکھا وہ لوگ اپنے پادریوں اور رؤسا کو سجدہ کرتے ہیں مجھے اپنے دل میں یہ بات اچھی لگی کہ ہم لوگ آپ کے ساتھ ایسا کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایسا نہ کرو، اگر میں کسی کو اللہ کے سوا سجدہ کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کیا کرے، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے عورت اپنے رب کا حق اتنی دیر تک ادا نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے اور اگر شوہر اس سے خواہش کا اظہار کرے اور وہ اونٹ کے کجاوے پر بیٹھی ہو تو بھی اسے انکار نہ کرے۔‘‘ قاضی شوکانی رحمہ اللہ معاذ رضی اللہ عنہ والی اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’وفی ہذا الحدیث دلیل علی أن من سجد جاہلا لغیر اللّٰہ لم یکفر۔‘‘[1] ’’اس حدیث میں دلیل ہے کہ جس آدمی نے جہالت کی وجہ سے غیر اللہ کو سجدہ کیا وہ کافر نہیں ہوا۔‘‘ اسی طرح ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((والذی نفس محمد بیدہ لا یسمع بی أحد من ہذہ الأمۃ یہودی ولا نصرانی ثم یموت ولم یؤمن بالذی أرسلت بہ إلا کان من أصحاب النار۔))[2] ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، نہیں سنتا میرے بارے میں کوئی بھی اس امت میں سے خواہ وہ یہودی ہے یا عیسائی پھر مرجاتا ہے اور جو کچھ مجھے دے کر بھیجا گیا اس پر ایمان نہیں لاتا مگر وہ آگ والوں میں سے ہو گا۔‘‘ قاضی عیاض اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
[1] ) نیل الاوطار: 12/341۔ بتحقیق محمد صبحی بن حسن حلاق ط دار ابن الجوزی۔ [2] ) صحیح مسلم کتاب الایمان: 24/153۔ مسند احمد: (8203) 13/522، (8609) 14/261۔ مسند ابی عوانۃ: 1/104۔ شرح السنۃ للبغوی: (56)۔ کتاب الایمان لابن مندہ: (401)۔