کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 184
بجحد ما یجحد حتی تقوم علیہ الحجۃ وقد یکون الرجل لا یسمع تلک النصوص أو سمعہا ولم تثبت عندہ أو عارضہا عندہ معارض آخر أوجب تأویلہا، وإن کان مخطئا۔‘‘[1] ’’تکفیر امور وعید یہ میں سے ہے چاہے اس کا قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی تکذیب کرتا ہو لیکن ہو سکتا ہے اس نے اسلام حال ہی میں قبول کیا ہو یا پھر وہ کسی دور درازجگہ میں رہائش پذیر ہو جہاں اسلام کی تعلیمات مکمل طور پر نہ پہنچ سکیں ہوں تو ایسے شخص کی تکفیر نہ کی جائے گی سوائے حجت کے قائم کرنے کے بعد اوربعض اوقات ہوتا ہے کہ کسی نے کسی مسئلہ میں متعلقہ نصوص نہیں سنی ہوتی اور یا پھر اس کی سماعت تک تو پہنچی ہوتی ہیں لیکن اس کے نزدیک درست ثابت نہیں ہوتی یاپھر اس کے نزدیک معارض نصوص بھی ہوتی ہیں تو باوجود اس کے وہ غلطی پر ہے لیکن ہم اس کی تکفیر نہیں کر سکتے۔‘‘ اور ایک جگہ لکھا کہ: ’’ولیس لأحد أن یکفر أحدا من المسلمین وإن أخطأ وغلط حتی تقام علیہ الحجۃ وتبین لہ المحجۃ ومن ثبت إسلامہ یبقین لم یزل ذلک عنہ بالشک، بل لا یزول إلا بعد إقامۃ الحجۃ وإزالۃ الشبہۃ۔‘‘[2] ’’پس کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کی تکفیرکرے چاہے وہ غلطی پر ہی کیوں نہ ہو جب تک اس پر حجت نہ قائم کی جائے اور اس کے لیے دلیل اچھی طرح واضح ہو جائے اور جس کا اسلام یقین کے ساتھ ثابت ہے وہ اس سے شک کے ساتھ زائل نہ ہو گا مگر حجت قائم کرنے اور شبہات زائل کرنے کے بعد۔‘‘ اور ابن قدامہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’المغنی‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ: ’’اگر وہ شخص کسی چیز کے وجوب کا منکر ہے کیونکہ وہ اسلام جدید کا حامل ہو سکتا ہے یا پھر اس نے کسی ایسی جگہ تربیت پائی ہو جہاں اسلام کی مکمل تعلیمات نہ پہنچ سکیں ہوں، اہل علم اس کی تکفیر نہیں کرتے یہاں تک کہ اس کو پہلے اس مسئلہ پر وارد شدہ نصوص سے متعارف کروایا جائے اور سمجھایا جائے اور پھر بھی انکار کرے تو وہ کافر ہو گا، اور اگر وہ ایسی جگہ پر ہے جہاں اسلام مکمل
[1] ) مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ: 3/231۔ [2] ) مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ: 12/466۔