کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 183
من باب الأولی۔‘‘[1] ’’جب اللہ تعالیٰ عقلمند کو عذاب اس لیے نہیں دے گا کہ اس تک دعوت نہیں پہنچی تو غیر عاقل کو بالاولیٰ عذاب نہیں دے گا۔‘‘ اسی طرح چھوٹے بچوں کی بابت اختلاف ہے مسلمانوں کے بچے تو جنت میں جائیں گے ہی البتہ کفار اورمشرکین کے بچوں میں اختلاف ہے اس میں کوئی توقف کا قائل ہے اور کوئی جنت میں جانے کا قائل اور کوئی جہنم میں جانے کا قائل ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’میدان محشر میں ان کا امتحان لیا جائے گا جو اللہ کے حکم کی اطاعت اختیار کرے گا وہ جنت میں اور جو نافرمانی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘[2] لیکن صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے بچے بھی جنت میں جائیں گے۔[3] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف بیان کرتے ہوئے ساتویں قول کے تحت لکھتے ہیں: ’’وقد صحت مسألۃ الإمتحان فی حق المجنون ومن مات فی الفترۃ من طرق صحیحۃ وحکی البیہقی فی کتاب الإعتقاد أنہ المذہب الصحیح۔‘‘[4] ’’مجنون اور فترت کے زمانہ میں فوت ہونے والے شخص کے حق میں امتحان کامسئلہ صحیح طرق سے ثابت ہے اور امام بیہقی نے کتاب الاعتقاد میں بیان کیا ہے کہ یہ مذہب صحیح ہے۔‘‘ خلاصۃ القول جب تک اس پر حجت قائم نہ کی جائے گی اس پر حکم نہ لگایا جائے گا اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’صحیح البخاری‘‘ میں لکھا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’والتکفیر ہو من الوعید فإنہ وإن کان القول تکذیبا لما قالہ الرسول لکن قد یکون الرجل حدیث عہد بإسلام أو نشأ ببادیۃ بعیدۃ ومثل ہذا لا یکفر
[1] ) فتح الباری: 4/179۔ شرح صحیح مسلم:16/182۔ [2] ) تفسیر ابن کثیر، سورۃ بنی اسرائیل: 15۔ 4/127۔ بتحقیق عبدالرزاق المہدی۔ [3] ) صحیح البخاری مع الفتح: 4/177۔ ط دار طیبہ۔ [4] ) فتح الباری: 4/179۔