کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 18
اس سے معلوم ہوا کہ امام ذہبی اور ان کے شیخ امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کا بھی آخری فیصلہ یہی ہے کہ وہ کسی مسلم کی تکفیر نہیں کرتے تھے اور احتیاط کی روش اپنانے میں ہی خیر ہے۔ بعض جہال امام ابن تیمیہ وغیرہ کی مجمل عبارات پیش کر کے لوگوں کی تکفیر پر کمربستہ ہیں، جو اسلام اور اہل اسلام کے لیے بدنما دھبہ ہیں۔ ایسے جہال علمائے کرام کی تکفیر سے بھی نہیں چوکتے۔
جہلاء کا علماء کی تکفیر کرنا سب سے بڑا منکر
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی نظر میں یہ ایک بہت بڑا منکر (حرام) ہے کہ جہلاء کو علماء کی تکفیر پر مسلط کر دیا جائے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فإن تسلیط الجہال علی تکفیر علماء المسلمین من أعظم المنکرات، و إنما أصل ہذا من الخوارج و الروافض الذین یکفرون ائمۃ المسلمین۔‘‘[1]
’’بلاشبہ جہال کو مسلمانوں کے علماء کی تکفیر پر مسلط کر دینا سب سے بڑی منکر (غیر مشروع) چیز ہے اور اس کی اصل خوارج اور روافض میں سے ہے، جو ائمۂ مسلمین کی تکفیر کرتے ہیں۔‘‘
خوارج اور روافض ایسے خبثاء ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کے اولین گروہ مہاجرین اور انصار رضی اللہ عنہم کی تکفیر کی اور ان پر طعن و تشنیع کا دروازہ کھولا اور آج انہی کی کوکھ سے جنم لینے والے بعض مُخبّثین (شریر لوگ) امت مسلمہ کی تکفیر کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔
حیرت و افسوس اس بات پر ہے کہ بعض اہل السنۃ، اہل الحدیث کی طرف منسوب لوگ بھی اس آفت کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ اس سے قبل اس بات کا اظہار امام ابن دقیق العید اور علامہ ابن الوزیر الیمانی بھی کر چکے ہیں۔
امام ابن دقیق العید کی توضیح
امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’و ہي ورطۃ عظیمۃ وقع فیہا خلق من المتکلمین و المنسوبین إلی السنۃ و أہل الحدیث۔‘‘[2]
’’یہ ایک بہت بڑا بھنور (ایسا دشوار معاملہ جس سے چھٹکارا مشکل ہو) ہے جس میں متکلمین اور
[1] ) مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ: 35/100.
[2] ) احکام الاحکام شرح عمدۃ الاحکام: 4/74۔ ایثار الحق علی الخلق لابن الوزیر، ص: 386.