کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 179
پھر مزید لکھتے ہیں: ’’أن العذاب یستحق بسببین، أحدہما: الإعراض عن الحجۃ وعدم إرادتہا والعمل بہا وبموجبہا الثانی: العناد لہا بعد قیامہا وترک إرادۃ موجبہا۔ فالأول کفر إعراض والثانی کفر عناد۔ وأما کفر الجھل مع عدم قیام الحجۃ وعدم التمکن من معرفتہا فہذا الذی نفی اللّٰہ التعذیب عنہ حتی تقومحجۃ الرسل۔‘‘[1] ’’بلاشبہ عذاب کا حق دار دو اسباب کی بنا پر ٹھہرایاجاتا ہے، ان میں ایک تو یہ ہے کہ حجت شرعیہ سے اعراض اورمنہ موڑ لینا، اس حجت اور اس پر عمل کرنے کا ارادہ ہی نہ کرنا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ حجت قائم ہونے کے بعد اس کے ساتھ عناد رکھنا اور اس کے نتیجہ اور اثر کا ارادہ ہی ترک کر دینا، پہلی صورت کفرِ اعراض ہے اور دوسری صورت کفرِ عناد ہے بہر کیف حجت کے قائم نہ ہونے اور اس کی اچھی طرح معرفت حاصل نہ ہونے کے ساتھ کفرِ جہل وہ چیز ہے جس سے اللہ نے عذاب دینے کی نفی کی ہے یہاں تک کہ رسولوں کی حجت قائم ہو جائے۔‘‘ علامہ شاطبی (المتوفی 790 ھ) قرآن کی طرف جن علوم کی اضافت کی گئی ہے ان کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’فمن ذلک: عدم المؤاخذۃ قبل الإنذار، ودل علی ذلک إخبارہ تعالی عن نفسہ بقولہ: {وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا} (الاسرائ: 15) فجرت عادتہ في خلقہ أنہ لا یؤاخذ بالمخالفۃ إلا بعد إرسال الرسل، فإذا قامت الحجۃ علیہم: (فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ) (الکہف: 29) ولکل جزاء مثلہ۔‘‘[2] ’’تنبیہ اور وارننگ سے قبل مؤاخذہ نہ کرنا اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا اپنا قول ہے: ’’اور ہم عذاب دینے والے نہیں یہاں تک کہ کوئی رسول بھیج دیں۔‘‘ مخلوق کے بارے اس کی یہ عادت جاری و ساری ہے کہ وہ رسولوں کے بھیجنے کے بعد ہیں مخالفت پر پکڑتا ہے، جب ان پر حجت قائم ہو جائے۔ ’’تو پھر جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔‘‘ ہر ایک کے لیے اس کی مثل بدلہ ہے۔‘‘ ایک اورمقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
[1] ) طریق الہجرتین لابن القیم الجوزی، ص: 414۔ [2] ) الموافقات: 4/200۔ بتحقیق ابی عبید مشہور حسن آل سلمان۔