کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 176
علامہ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’ظاہر ہذہ الآیۃ الکریمۃ: أن اللّٰہ جلَّ وعلا لا یعذب أحدًا من خلقہ لا في الدنیا ولا في الآخرۃ۔ حتی یبعث إلیہ رسولاً ینذرہ ویحذرہ فیعصی ذلک الرسول، ویستمر علی الکفر والمعصیۃ بعد الإنذار والإعذار۔‘‘[1] ’’اس آیت کریمہ کا ظاہری تقاضا یہی ہے کہ اللہ جل وعلا اپنی مخلوق میں سے کسی کو دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں عذاب نہیں دیتا یہاں تک کہ اس کی طرف رسول بھیج دے جو اسے ڈرائے اورمتنبہ کرے پھر ڈرانے اور عذر ختم کرنے کے بعد وہ رسول کی نافرمانی کرے اورکفر و معصیت پر قائم و دائم رہے۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فتکفیر المعین من ہؤلاء الجھال وأمثالہم بحیث یحکم علیہ بأنہ من الکفارلا یجوز الاقدام علیہ الا بعد ان تقوم علی أحدہم الحجۃ الرسالیۃ التي یتبین بہا أنہم مخالفون للرسل وان کانت ہذہ المقالۃ لا ریب انہا کفر، وہکذا الکلام في تکفیر جمیع ’’المعینین‘‘ مع ان بعض ہذہ البدعۃ أشد من بعض وبعض المبتدعۃ یکون فیہ من الایمان ما لیس في بعض فلیس لأحد أن یکفراحدا من المسلمین وان اخطأ وغلط حتی تقام علیہ الحجۃ وتبین لہ المحبۃ۔‘‘[2] ’’ان جہال اور ان کی مثل لوگوں کی طرف سے کسی معین فرد پر کفر کا حکم لگانا اس اعتبار سے کہ وہ کافروں میں سے جائز نہیں ہے الا یہ کہ ان میں سے ہر کسی پر رسالت کی وہ حجت قائم کی جائے جس سے کھل کر واضح ہو جائے کہ وہ رسولوں کی مخالفت کرنے والے ہیں اگرچہ وہ بات بلا ریب کفریہ ہو۔ اسی طرح تمام معین افراد کا حکم ہے، جبکہ بعض بدعات بعض سے زیادہ سنگین نوعیت کی ہوتی ہیں اور بعض بدعتیوں میں وہ ایمان ہوتا ہے جو بعض میں نہیں ہوتا، کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ مسلمانوں میں سے کسی کی تکفیر کرے اگرچہ وہ خطاکرے یا غلطی کا مرتکب ہو، یہاں تک کہ اس پر حجت قائم کی جائے اور دلیل اس کے لیے کھل کر واضح ہو جائے۔‘‘
[1] ) اضواء البیان فی ایضاح القرآن بالقرآن، ص: 542۔ ط دارلکتب العلمیۃ۔ [2] ) مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ: 12/500۔501۔