کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 174
امام قرطبی لکھتے ہیں: ’’أن اللّٰہ لا یہلک أمۃ بعذاب إلا بعد الرسالۃ إلیہم والإنذار۔‘‘[1] ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی امت کو عذاب کے ساتھ ہلاک نہیں کرتا مگر ان کی طرف رسالت بھیجنے اور آگاہ کرنے کے بعد۔‘‘ امام المفسرین امام طبری فرماتے ہیں:’’وما کنا مہلکي قوم إلا بعد الإعذار إلیہم بالرسل، وإقامۃ الحجۃ علیہم بالآیات التي تقطع عذرہم۔‘‘[2] ’’اور ہم کسی قوم کو ہلاک نہیں کرتے مگر رسولوں کو ان کی طرف بھیج کر عذر ختم کرنے کے بعد اور ایسی آیات کے ساتھ ان پر حجت قائم کرنے کے بعد جو ان کے عذر ختم کر دے۔‘‘ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’وأنہ لا یعذب أحدًا إلا بعد قیام الحجۃ علیہ بإرسال الرسول إلیہ۔‘‘[3] ’’اور وہ کسی کو عذاب نہیں دیتامگر اس کی طرف رسول بھیج کر اس پر حجت قائم کرنے کے بعد۔‘‘ علامہ جمال الدین قاسمی سورۃ بنی اسرائیل: 15، طہ: 134، الملک: 8۔9، الزمر: 71 اور فاطر: 37 آیات ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’إلی غیر ذلک من الآیات الدالۃ علی أنہ تعالی لا یعذب قوما عذاب استئصال ولا یدخل أحدا النار إلا بعد إرسال الرسل۔‘‘[4] ’’یعنی مذکورہ بالا آیات کے علاوہ بھی کتنی ایسی آیات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بیخ کنی کرنے والا عذاب نہیں دیتا اورنہہی کسی کو آگ میں داخل کرتا ہے مگر رسولوں کو بھیجنے کے بعد۔‘‘ امام بغوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’ (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا) إقامۃ للحجۃ وقطعا للعذر۔‘‘[5] ’’اللہ کا فرمان: اور ہم عذاب دینے والے نہیں یہاں تک کہ کوئی رسول بھیج دیں۔ یہ حجت قائم
[1] ) الجامع لأحکام القرآن: 10/152۔ [2] ) تفسیر طبری: 14/526۔ ط دار عالم الکتب۔ [3] ) تفسیر ابن کثیر: 4/122۔ بتحقیق عبدالرزاق المہدی۔ [4] ) تفسیر القاسمی: 6/450۔ ط: دارالکتب العلمیۃ۔ [5] ) تفسیر بغوی: 3/108۔ ط ادارہ تالیفات اشرفیہ۔